جمہوریت کے لیے جمہور کا رول اور دہلی انتخابات
ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندستان دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور گزشتہ 65سالوں سے نظام جمہوریت سوائے ایک بار (ایمرجنسی) کو چھوڑ کر قائم رکھنے اور اسے مضبوط کرنے کی دستوری طور پر کوشش جاری ہے۔ اسی وجہ سے مختلف سیاسی پارٹیاں تنہا یا مشترکہ طور پر مرکز میں اور ریاستوں میں حکومتیں بناتی ہیں اور حکومتیں گرتی ہیں۔ 65سال کی اس مدت میں ہمارے ملک کے باشندے جو جمہور کی شکل میں اپنی دانائی اور فراست کا ثبوت دیتے رہے ہیں کبھی کبھی جذباتیت سے مغلوب ہوکر ایسی پارٹیوں کو مرکز اور ریاستوں میں حکومت فراہم کا موقع دیتے ہیں جو بڑے بڑے وعدے کرتی ہے اور وہ حسین سپنے دکھاتی ہے جو عام طور پر سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھ پاتی ہے اور حکومت عوام سے خوفزدہ ہونے کے بجائے حکومت سے ڈرنے لگتی ہے۔ حکومت کے کل پُرزے اور وہ تمام ادارے جو ملک کو ترقی، تعلیمی اور اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے میں رول ادا کرسکتے ہیں اسے مضبوط کرسکتے ہیں وہ حکومت کے خوف سے ان کے اشارے پر کام کرنے لگتی ہیں جس کا نتیجہ ملک کو فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور یہ نقصان اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس سے سنبھلنے کا موقع جلد ہاتھ نہیں آتا ہے۔ موجودہ حکومت جو مرکز میں برسراقتدار ہے اپنے 7ماہ کے دوران پروپیگنڈہ مشنری، میڈیا اور دیگر وسائل کے ذریعہ آنکھوں میں دھول تو جھونکتی رہی مگر کسانوں کو دھرتی ماں سے دور کرنے اور اس کے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے نہ پانی دیا نہ خوراک دی اس کے برخلاف آپس میں مل جل کر رہنے کو خطرناک رحجان بتانے، بیروزگاری بڑھانے اور قیمتوں میں اضافہ وغیرہ ہورہا ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کے مکھیا یہ کہتے ہیں کہ وہ خوش نصیب ہیں اس لیے ان کی حمایت کی جائے، شاید ہم میں سے کوئی نہیں ہے جو ان کی خوش نصیبی کا انکار کرے کیوں کہ وہ گجرات کے وزیراعلیٰ سے وزیرا عظم بن گئے لیکن ان کے وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بننے کے مراحل میں کتنے بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، کام نہ کرکے پروپیگنڈہ کو میڈیا کے ذریعہ پیش کیا گیا۔ ان حقائق کو ہر کوئی جانتا ہے اور اسی خوش نصیبی کا یہ حصہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کے بدن پر تن چھپانے کو کپڑا نہیں ہے لیکن خود ان کے بدن کو 10لاکھ روپے کے کپڑے نصیب ہیں۔ عوام کو محنت کے ذرائع بھی چاہیے، وسائل بھی چاہیے اسے مزدوری بھی چاہیے اور اس کے لیے اسے پُر امن ماحول چاہیے۔ ایک دووسرے پر اعتماد بھی چاہیے۔ قانون کی بالادستی، دستور کا احترام اور عدلیہ کو انصاف دینے میں حکومت کے سارے کل پُرزے مددگار ہونے چاہیے لیکن بن آنکھوں والے بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ساری چیزیں راستے سے ہٹتی جارہی ہیں۔
جمہور کا یہ رول ہے کہ ملک کو بندوق سے بچاتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور وہ ووٹ جو ملک کی تقدیر ہی نہیں حکومت بھی بناتی ہے۔ وہ ووٹ جس کے استعمال نہ ہونے کے نتیجہ میں غلط لوگوں کے آنے کا خطرہ ہوتا ہے اور ووٹ کے پورے طور پر استعمال ہونے کے نتیجہ میں اگر ان شخصیات اور ان سیاسی پارٹیوں کو اپنی فراست، سمجھ اور جذباتیت سے بلند ہوکر مفاد اعظم کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں دیکھ سکے تو یہ خطا بظاہر 5سال کے لیے ہوتی ہے مگر اس کے اثرات کئی دہائیوں تک پہونچ جاتے ہیں، یقینی طور پر دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے، مختلف تہذیبوں کا گہوارہ اور مختلف ذہانتوں کا مرکز ہے اور پورے ہندستان کے دانشوران، مفکرین، میدان میں کام کرنے والے اور ہر وہ چیز جو جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے وہ یہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے دہلی جو ابھی چھوٹی سی ایک نامکمل ریاست ہے اس پر پورے ملک کی نگاہیں لگی رہتی ہیں کہ یہاں کے عوام کا رجحان کیا ہے اور ان کا فیصلہ کس سیاسی شخصیت یا سیاسی پارٹی کی طرف جارہا ہے، اور اس کا فیصلہ منظر عام پر رزلٹ آنے کے بعدہوجاتا ہے۔ اس لیے دہلی میں تمام انصاف پسند، سیکولر اور سوشلسٹ اقدار پر یقین رکھنے والے دستور کی بالادستی کو مضبوط کرنے، قانون کا خوف رکھنے والے اور اس کا احترام کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ دہلی کا یہ الیکشن نمونہ بن سکے۔ نمونہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ تو جذباتیت کا شکار ہوں، نہ منفی رویہ اختیار کریں، نہ اندھا یقین رکھیں اور نہ میڈیا کے غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہوں بلکہ آنکھیں کھول کر ہر سیاسی لیڈر کی خوبیوں اور خرابیوں کو اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسی سیاسی پارٹی جو نسل پرستی، تعصب، تفریق، نفرت اور دستور سے بلند ہونے کی کوشش، قانون کے ساتھ بھید بھاؤ اور بسااوقات اسے پامال بھی کیا جارہا ہو،جس کا نام بی جے پی ہے اور اس کے ساتھ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو روکنے کی ذمہ داری ہرگز اقلیتوں یا مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ انصاف پسندوں کی ہے جس میں اقلیتوں کے ساتھ بالخصوص دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں حق بھی مل سکے اور اپنی ترقی کے راستے کی بھینٹ اس لیے نہ چڑھادیا جائے کہ منواسمرتی کی روشنی میں وہ انسانوں میں ’پروقار‘ نہیں ہیں۔
یقینی طور پر اس کے مد مقابل بہت ساری سیاسی پارٹیاں جو دستور پر یقین رکھتی ہیں اور بظاہر سیکولر وسوشلزم پر بھی اعتماد کا اظہار کرتی ہیں اور وہ اس الیکشن میں مد مقابل ہیں لیکن دہلی کے جمہور جو ووٹرس ہیں کے سامنے یقینی طور پر ایک بڑا چیلنج ہے کہ ان سیکولر پارٹیوں میں ہم کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں۔ اس طرح مختلف حلقوں میں کون سی شخصیت مناسب ہے جس پر کرپشن کے الزام اور کریمنل ریکارڈ یا دھونس جمانے، مافیا سے تعلق رکھنے خواہ وہ زمین مافیا یا کوئی اور مافیا ان کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تاکہ کمزور اور غریب لوگ حکومت اور حکومت کی بنائی ہوئی اسکیموں سے فائدہ اٹھاسکیں۔ سیاسی پارٹیوں کے سلسلہ میں اس رجحان کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کی پوری طاقت کس سیاسی پارٹی کو اپنا دشمن نمبر ایک قراردیتی ہے۔، وہ کس سے خوفزدہ ہورہی ہے، کس شخص اور پارٹی پر ذاتی قسم کے الزامات لگانا شروع کررہی ہے، بحث ومباحثہ سے گریز کررہی ہے اور عوام سے کہا جارہا ہے کہ اگر مرکز کی حکومت کے ساتھ ریاست کی حکومت بنے گی تو ریاست کی ترقی ہوگی، یہ کس پارٹی کے لیے کہا جارہاہے۔ اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے ساتھ بھی بھید بھاؤ پر یقین رکھتی ہے۔ قومی وسائل پر ان ریاستوں جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے اس کو اس کا حصہ نہ دینے یا کم دینے یا تاخیر سے دینے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ ان تمام پہلوؤں پر غور کریں تو دہلی میں ووٹ ڈالنے وقت صاف نظر آئے گا کہ بی جے پی کو ہرانے والی کون سی پارٹی ہے سوائے چند ایک سیٹ ایسی ہوسکتی ہے جس پر سیکولر پارٹیوں کے دوسرے امیدوار مدمقابل ہوں۔ ابھی چند دن باقی ہیں، دہلی کے ووٹرس تجربہ کار بھی ہیں اور سمجھدار بھی، اتار چڑھاؤ دیکھے ہوئے ہیں، مختلف آزمائشوں سے گزرے ہیں اوپر بتائے گئے پیمانے کے مطابق آسانی سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
(یہ مضمون اردو کے بہت سارے اخبارات میں شائع ہواہے)




Back   Home