موجودہ سیاسی حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل
ڈاکٹر محمد منظور عالم
16ویں لوک سبھا کے انتخابات عام ہندوستانیوں بالخصوص اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے حیران کرنے والا نتیجہ تھا۔ وہ لوگ جو وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں رکھتے تھے کہ آر ایس ایس اور اس کی ٹیم کی کوششوں کے نتیجہ میں بی جے پی کو 30سال کا ریکارڈ توڑنے کا موقع مل جائے گا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر کہیں سراسیمگی کی حالت میں ہیں تو کہیں خوف اور اپنے اندر بے اعتمادی پید ا ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی کمیوں کی طرف نگاہیں دوڑنے لگی ہیں۔ دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے ان لوگوں کی ناکامی نے اس بے اعتمادی میں اضافہ کیا ہے جس سے ایک طرح کی نفسیاتی ہیجان کی کیفیت پید اہوگئی ہے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ اس نتائج کے مکمل اسباب کا تجزیہ کیا جائے۔ آر ایس ایس اور اس کے فلسفہ کے تحت چلنے والی بے شمار تنظیموں اور این جی اوز اور اس کے تعلقات اسرائیل اور امریکن ایجنسیوں کے بارے میں بات رکھی جائے۔ اس وقت صرف چند باتیں اس نتائج کے نفیساتی پہلو بالخصوص مسلمانوں کے سلسلے میں رکھنا چاہوں گا، تاہم کچھ باتوں کو اس طرح دہراتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس نے جس طرح بی جے پی کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لیا اور مودی کا پروجیکشن جس قوت کے ساتھ کیا گیا کہ اس کے سامنے بی جے پی کی چاہے جتنی قد آور شخصیت ہو ہیچ نظر آنے لگی۔ گزشتہ 3/4سالوں سے ہر میدان میں اپنی حکمت عملی کو سلیقہ مندی اور ہوشیاری سے میڈیا اور کارپوریٹ کے سہارے پیش کرتے چلے گئے جس میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمان بالعموم اور بالخصوص اس کی قیادت کو کیسے گمراہ کیا جائے، کس طرح اسے کنفیوژن کا شکار کیا جائے، اس کے اثرات یہ ہوئے کہ مختلف کارنر سے ہمارے اکابرین یا قیادت کرنے والے مختلف طرح کے بیانات دینے لگے جس میں کہا گیا ’ہمیں مودی سے کوئی ڈر نہیں‘ ،’مودی ہمارا کیا بگاڑے گا‘، ’کانگریس اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں‘، ’کانگریس سے زیادہ نقصان پہونچا ہے‘، ’سیکولر پارٹیاں بی جے پی لائن پر چل رہی ہیں‘، ’فسادات کانگریس کے زمانے میں زیادہ ہوئے‘، ’کانگریس کی غلامی کریں یا عزت کی زندگی گزاریں‘، ’مودی اگر معافی مانگ لے تو مسلمان سوچ سکتا ہے‘، ’کانگریس اور بی جے پی کو چھوڑ کر کسی بھی سیاسی پارٹی کو حمایت دی جاسکتی ہے‘، ’کانگریس کو سبق سکھانا ضروری ہے‘وغیرہم۔ یہ سارے بیانات مسلمانوں کے اندر کنفیوژن کو بڑھانے میں مدد کرتے رہے اور جو بھی قیادت کا بھرم تھا ان بیانات کی وجہ سے وہ بھرم بھی جاتارہا۔ بہرحال نتیجہ سامنے ہے، پوری اکثریت کے ساتھ بی جے پی نے اپنے زیادہ کھلے اور کچھ چھپے ہوئے ایجنڈہ کے ساتھ حکومت سازی مکمل کرلی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے وہ گروہ جو آر ایس ایس فلاسفی‘ اس کے عملدر آمد اور اس کی حکمت عملی سے واقف تھے، وہ اپنے اندر بے بسی، خوف اور تاریک مستقبل دیکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دوسرا گر وہ جو طاقت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ا س حکومت کے آتے ہی تانے بانے اور ڈور کو اس طرح جوڑنے اور پھیلانے میں لگاہے کہ کیسے اور کس طرح اقتدار کے گلیارے میں داخل ہوسکے اور اپنے مفاد کو حاصل کرسکے۔ تیسرا گروہ ان چیزوں سے واقف نہیں مگر اس کی حمیت اسلام زندہ ہے مگر تفاصیل اسلام سے وہ واقف نہیں ہے۔ وہ اسلام کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہے وہ گروہ حیرت زدہ ہے۔ مایوسی کے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور سیکولرازم کو کوستے ہوئے نظر آرہا ہے، قیادت کے سلسلے میں کف افسوس ملتا نظر آرہا ہے۔ اس پس منظر میں جب موجودہ حکومت کے سلسلے میں کچھ باتیں آتی ہیں تو مختلف قسم کے رد عمل بھی نظر آتے ہیں۔ جو لوگ قلمکار ہیں وہ اپنے قلم کا شاہکار ہونے کا یہ ثبوت دیتے ہیں کہ ناموں کے ساتھ الزام تراشی بھی کی جائے، اس کی نیتوں پر بھی حملہ کیا جائے اگرچہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف کہا ہے کہ نیتوں کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ اس پہلو سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کے نفسیاتی پہلو پر ہم گفتگو کرتے ہیں۔

ہندستان ایک بڑ اجمہوری ملک ہے اور دستوری نظام کے تحت قائم ہے۔ جہاں مختلف مذاہب، لسانی اقلتیں، ذات برادری، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب وغیرہ پر مشتمل ایک گلدستہ کا تصور دستور نے دیا ہے اور اسی نظام کے تحت یہ الیکشن جس الیکشن نے آنکھوں سے دیکھا کہ میڈیا کا تقدس بکا، دولت کی فراوانی انسانی عقل وشعور پر سوار ہوئی، دستور کے مختلف پہلو جو گلدستہ کو برقرار رکھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، اس کو پامال ہوتے دیکھا، قاتل کو معصوم ہوتے دیکھا اور کمزور طبقات بالخصوص اقلیتوں اور مسلمانوں پر حملہ آوروں کو ہر طرح کا دفاع فراہم کرتے دیکھا، جس کا نتیجہ سب کے سامنے 16مئی کو آگیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس صورت میں مسلمان ایسی حکومت جس کا فلسفہ انصاف پسندی پر نہیں، برابری کے قیام کے لیے نہیں، بھائی چارگی پیدا کرنے کے لیے نہیں، سارے شہریوں کوبرابری کا حق دینے کے لیے نہیں بلکہ اونچ نیچ اور منو اسمرتی کو حمایتی دینے پر قائم ہو، اس سے کیسے مخاطب ہواجائے، ظاہر ہے اس کے لیے ہمیں اسلام کی تعلیمات سے روشنی لینی ہوگی، تاریخ سے سبق لینا ہوگا، حال پر نظر رکھنا ہوگی اور مستقبل کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب فرعون کی سرکشی بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسول کو بھیجا کہ اسے نصیحت کرے تاکہ وہ اللہ کے خوف سے اس کی بات مان لے۔ اللہ تبارک تعالیٰ جو خالق ہے اور قدرت رکھتا ہے جسے جب چاہے صرف اشارے سے ختم کرسکتا ہے اسے اپنے برگزیدہ رسول کے ذریعہ ایک انسانی پیغام وحدت کے ساتھ دیا گیا۔ اسی طرح جب نبی کریمؐ اپنی دعوت کو عام کرنے کے لیے طائف پہونچے تو وہاں کے اوباشوں، سخت گیروں اور ظالموں نے ان پر نہ صرف ظلم کیا بلکہ سنگ باری بھی کی۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم لہو لہان ہوگئے۔ اللہ کی رحمت جوش میں آئی، فرشتے وہاں پہونچ گئے اور صرف حکم کا اشارہ چاہتے تھے کہ دونوں پہاڑوں کو جوڑ دیا جائے تاکہ یہ سارے اوباش ختم ہوجائیں، قربان جائیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر انھوں نے اگلی نسل پر امید رکھی کہ شاید وہ اسلام کے سایہ رحمت کو حاصل کرسکیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں کہا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یہ وہ اسلوب ہے جسے حضرت علیؓ نے بھی کچھ اس طرح کہا ہے جس کا مفہوم ہے، زندہ انسان اور زندہ قوم اپنے اندر لچک رکھتی ہے جبکہ مردہ قوم یا مردہ انسان کے اندر اکڑ پائی جاتی ہے۔لچک کے معنی یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ سرینڈر کر رہا ہے بلکہ وہ ایک حسین امتزاج پیدا کرتا ہے اکڑ اور لچک کے درمیان تاکہ Spaceقائم رہے، گفتگو کے دروازے کھلے رہیں، دستوری حقوق کو حاصل کرنے کی جدو جہد نہ صرف باقی رہے بلکہ اس کے اندر ایک نئی قوت پید اہوسکے، نئی سوچ اپنے ورثہ (Heritage)اسلام کی روشنی میں قرآن کی ہدایت اور نبی کریمؐ کے اسوہ حسنی کی روشنی میں جنم دیں، انسانیت اور اس کے وقار(Diginity)کو برقرار رکھنے کے لیے راہ امن تیار کریں۔

فراست ہرگز اس کا نام نہیں کہ آپ دشمنوں کو کتنا لعن طعن کرتے ہیں، کوستے ہیں، کتنی گالی مہذب اور غیر مہذب طریقوں سے دیتے ہیں۔ فراست نام ہے گہرائی سے صورتحال کا تجزیہ کرنے ہر طرح کے ذہن سے آزادی اور نفرت سے دوری تبھی حالات کا مقابلہ اس فراست سے کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے نبیؐ نے کہا ’مومن کی فراست سے ڈرو چونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘۔ آج کی فراست یہ مطالبہ کررہی ہے کہ 69فیصد عوام نے آر ایس ایس کی ساری تنظیموں بنام بی جے پی کو کیوں مسترد کردیا اور وہ کیوں اس کے ہمنوا نہیں ہوئے؟ یہ الگ بات ہے کہ ان کے سارے ووٹ تقسیم ہوگئے، وہ ووٹ تقسیم کرانے میں کامیاب ہوگئے مگر ہماری فراست یہ کہتی ہے کہ ہمیں بغیر وقت ضائع کیے اپنی حکمت عملی کے ذریعہ انسانی وقار کو بحال کرانے کی تدابیر پر غور کرنا چاہیے۔ تاریخ کے اوراق کو سیاہ کرنے کی جو کوشش کی جائے گی، اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے، تعلیم کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی جو کوشش کی جائے گی اور انسانی تہذیب جو گلدستہ کی طرح سے خوبصورت، خوشبودار اور آنکھوں کو بھانے والا اور معاشرہ میں سرایت کرنے والے پہلو سے کیسے بچایا جائے؟ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اپنے کو الگ تھلگ نہ کرکے انسانی دھارے میں انسانی بقا کے لیے انسانیت کے فروغ کے لیے اپنا داعیانہ رول ادا کریں۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب ہم خیر امت کے لقب پانے والے اپنے اس فرائض منصبی سے دور ہوتے ہیں تو ہمیں سزا بھی ملنے لگتی ہے اور اسے اگر ہم تازیانہ کے طور پر لیں تو میرا یقین ہے کہ ہم اس ملک کو سنوارنے کے لیے اپنی توانائی، قوت اور اس ملک کی دیگر تہذیبی اکائیوں کو ساتھ لیتے ہوئے اپنے ملک کو جنت نما بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home