وعدوں کے آئینہ میں اکھلیش حکومت
خورشید عالم
اترپردیش کی سماجوادی پارٹی نے اپنی حکومت کے تین سال پورے کرلیے ہیں۔ اس موقع پر ریاستی حکومت کی جانب سے اپنی کارگزاریوں کو بتانے کا سلسلہ جاری ہے اور بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش ہورہی ہے کہ سماجوادی حکومت نے بہت کام کیے ہیں اور مسلمانوں کے تعلق سے بھی اس نے پیش رفت کی ہے جوکہ آنے والے دنوں میں اور بھی مضبوطی وتیز رفتاری کے ساتھ جاری رہے گا۔ ان اشتہارات میں 15محکموں کے ذریعہ کیے جارہے کاموں کو پیش کیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں سے متعلق امور کے لیے 7کاموں کو بطور کارکردگی پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ جاننا یقیناً دلچسپی کا موضوع ہوگا کہ پارٹی نے تین سال قبل ریاستی انتخابات کے موقع پر اقلیتوں سے اپنے انتخابی منشور میں کیا وعدے کیے تھے اور جو وعدے کیے تھے کیا ان کی تکمیل سے متعلق کوئی اعلان اس اشتہار میں ہے یا پھر انتخابی منشور کو نظر انداز کرکے کچھ دیگر اسکیموں کو اقلیتی طبقات کے لیے شروع کیا گیا ہے۔
2012میں ہوئے اترپردیش اسمبلی انتخابات کے موقع پر سماج وادی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں اقلیتوں سے متعلق 14وعدے کیے تھے۔ اس کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے قائم سچرکمیٹی کی رپورٹ کو نافذ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے اور رنگاناتھ مشراکمیشن کی سفارشات کو لاگو کرانے کے لیے مرکزی حکومت پرپورا دباؤ ڈالے گی اور جو سفارشات ریاستی حکومت سے متعلق ہیں یعنی ان کے ذریعہ سے نافذ ہوسکتی ہیں، انہیں پورے اترپردیش میں نافذکیا جائے گا۔ آرٹی آئی کارکن آروشی شرما کے مطابق اترپردیش حکومت نے سچرکمیٹی سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے کوئی پہل نہیں کی۔ 11فروری 2015کو ملے جواب میں اترپردیش حکومت نے اس بابت باضابطہ کوئی آرڈی نینس جاری نہیں کیا۔ اترپردیش کے رابطہ عامہ افسر آر این درویدی نے مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے حکومت نے کیا کیا کے جواب میں اطلاع کا زیرو ہونا لکھا ہے۔
مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے لیے سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں سبھی مسلمانوں کو اقتصادی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر دلتوں کی طرح آبادی کی بنیاد پر الگ سے ریزرویشن دینے کا وعدہ انتخابی منشور میں شامل ہے لیکن اکھلیش حکومت کے تین سال پورے ہونے پر جواشتہار حکومت کی جانب سے آیا ہے وہ اس ایشو پر خاموش ہے جبکہ ریاست کے سینئر لیڈر اور کا بینہ وزیراعظم خاں اپنے بیان میں واضح کرچکے ہیں کہ ان کی پارٹی نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے انتخابی منشور میں غلط لکھا گیا ہے؟ مسلم اکثریتی اضلاع میں نئے سرکاری تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا گیا ہے لیکن حکومت کے اشتہار میں اقلیتوں سے متعلق جو سات نکات ہیں، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اترپردیش میں جن بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے انہیں نہ صرف فوراً رہا کرایا جائے گا بلکہ معاوضے کے ساتھ انصاف بھی کیا جائے گا۔ رہائی منچ جیسی آرگنائزیشن مانتی ہیں کہ حکومت نے اس وعدے کو نہ صرف بھلادیا بلکہ نمیش کمیشن کی رپورٹ جس میں خالد مجاہد کو بے گناہ پکڑے جانے کی بات کہی گئی تھی پر بھی عمل نہیں کیا اور سابقہ حکومت کی طرح اس حکومت میں بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔ رہائی منچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وہ کسی کو رہا نہیں کرے گی تو انہیں معاوضہ کیسے دیا جائے گا۔
اردو کی ترقی کے لیے مسلم اکثریتی اضلاع میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی سطح پر سرکاری اردو میڈیم اسکول قائم کیے جائیں گے پر اشتہار کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ اشتہار کے سات نکات میں اس کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اترپردیش میں اردو کی ترقی کے لیے قائم خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی سے ہی اردو کو نکال دیا گیا ہے۔ کوئی بھی یونیورسٹی اپنی سطح سے اس طرح کا فیصلہ تبھی لے سکتی ہے جب حکومت کی مرضی ہو۔ پروفیسر مسعود خاں 14جون 2014کو اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور ایک ماہ بعد 10جولائی 2014کو انہوں نے باضابطہ اعلان کردیا کہ یونیورسٹی میں اردو، عربی اور فارسی اختیاری مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا اور اس کے نمبر امتحان میں نہیں جوڑے جائیں گے۔ اس طرح اردو ترقی کے نام پر خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا بنیادی مقصد ہی ختم کردیا گیا۔
درگاہوں کے تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے درگاہ ایکٹ بنایا جائے گا اور ریاست میں واقع سبھی درگاہوں کی ترقی کے لیے اسپیشل پیکیج دیا جائے گا، پر سرکاری اشتہار خاموش ہے۔ سبھی سرکاری کمیشنوں، بورڈوں اور کمیٹیوں میں کم سے کم ایک اقلیتی نمائندہ بطور رکن نامزد کیا جائے گا، پر بھی کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے سرکاری اشتہارات میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وقف بورڈ کی جائیداد پر سے ناجائز قبضے ہٹاکر انہیں وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔ وقف جائیدادوں کو تحویل اراضی قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے گا، کے ضمن میں وقف جائیداوں کے تحفظ کے لیے الگ قانون بنانا مینی فسٹو میں شامل ہے۔ یہ قانون کب بنے گا، اس پر تین سال پر مبنی سرکاری اشتہار خاموش ہے۔ مدرسوں میں تکنیکی تعلیم کے لیے بجٹ کا انتظام کیا جائے گا، مینی فسٹو کے وعدے کو پوا کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت 285 کروڑ روپے کا نظم کیا گیا ہے جبکہ 146نئے عالیہ سطح کے تسلیم شدہ مدارس کو گرانٹ دیے جانے کے لیے 42کروڑ روپے کا نظم کیا گیا ہے۔ تسلیم شدہ مدارس میں منی آئی ٹی آئی قائم کی جائے گی۔
مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے سیکورٹی فورسیز میں مسلمانوں کی بھرتی کے لیے خصوصی مہم چلائی جائے گی اور اس کے کیمپ لگاکر ان کی بھرتی کی جائے گی پر اشتہار کچھ بھی بولنے سے قاصر ہے اس کے علاوہ ریاستی حکومت کے ذریعہ جو لٹریچر دیکھنے کو ملا ہے اس میں بھی اس پر کوئی بحث دیکھنے کو نہیں ملی ہے جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ حکومت نے اس ضمن میں کیا پہل کی اور کتنے فیصد مسلمانوں کی سیکورٹی فورسیز میں بھرتی ان تین سالوں کے دوران ہوئی۔ قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضوں کو روکنے اور زمین کی حفاظت کے لیے چہار دیواری کے لیے بجٹ میں خصوصی پیکیج کا نظم کیا جائے گا کے تحت ریاستی حکومت نے اپنے بجٹ میں 200کروڑ روپے کا نظم کیا ہے۔ لیکن یہ جانکاری نہیں ملی کہ کن اضلاع میں کتنے قبرستانوں کی چہار دیواری تعمیر کرائی گئی اور مزید کتنے قبرستانوں کی چہار دیواری مکمل کرنے کے لیے درخواستیں آئی ہیں۔
جن صنعتی میدانوں میں اقلیتوں کی اکثریت ہے جیسے ہتھ کرگھا، ہینڈلوم، دستکاری، قالین صنعت، چوڑی، تالہ اور قینچی صنعت وغیرہ کو ریاستی حکومت حوصلہ افزائی کرے گی۔ کرگھوں پر بجلی کے بقایہ بلوں، لگنے والے سود، سود پر سود کو معاف کرکے بنکروں کو راحت دی جائے گی۔ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سبھی وکاس کھنڈ کی سطح پر ایک ایک آئی ٹی آئی قائم کیا جائے گا، مینی فسٹو کے اس وعدہ کا ذکر حکومت کے اشتہار میں شامل ہے لیکن اس میں کتنی رقم دی گئی اور کتنے لوگوں کو اس کا فائدہ ملا، کے بارے میں کسی طرح کے اعداد وشمار نہیں دیے گئے ہیں جبکہ اشتہار میں شامل دیگر مدوں کی کارکردگی کو اعداد وشمار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
10ویں پاس مسلم طالبات کو آگے تعلیم حاصل کرنے اور شادی کے لیے 30ہزار روپے کی گرانٹ کا نظم کیا جائے گا کا ذکر سرکاری اشتہار میں بھی ہے۔ لیکن یہ اسکیم تو ریاست میں تعلیم حاصل کررہی سبھی 10ویں پاس لڑکیوں کے لیے تو پھر اسے صرف مسلم طالبات سے جوڑ کر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اشتہار میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ہرسال کے حساب سے گزشتہ تین سال میں کتنی مسلم طالبات کو آگے کی تعلیم یا شادی کے لیے 30ہزار روپے کی گرانٹ دی گئی۔ مینی فسٹو کی آخری نکات جس کا نمبر شمار 14ہے میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے وہ تعلیمی ادارے جو یونیورسٹی کی شرطوں پر پورا اترتے ہیں، انہیں قانون کے تحت یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا کے ضمن میں اشتہار میں صرف یہ نکتہ درج ہے کہ یہ اسکیم ہے، اس کی شروعات کب ہوگی اور اقلیتوں کے ایسے کتنے تعلیمی ادارے ہیں جو یونیورسٹی کی شرطوں پر پورا اترتے ہیں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے برخلاف محمد علی جوہر یونیورسٹی میں میڈیکل کالج اور جدید تعلیم کے نظم کو سرکاری اشتہار میں کارکردگی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں میڈیکل اور جدید تعلیم کو سرکاری کام میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے۔
اشتہار میں سبھی ترقیاتی اسکیموں میں 20فیصد حصہ اقلیتوں کے لیے مختص کرنے کی بات کہی گئی ہے جوکہ انتخابی منشور میں نہیں ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس طرح کی اسکیمیں کتنی ہیں اور ان کی تعداد کیا ہے جہاں یہ نظم کیا گیا ہے۔
مظفرنگر فساد متاثرین جو راحت کیمپوں میں رہ رہے تھے حال فی الحال انہیں اجاڑ دیا گیا۔ اس ضمن میں ایس آئی ٹی کے ایڈیشنل افسر منوج جھا کا جو بیان اخبارات میں آیا ہے اس کے مطابق مظفرنگر فساد میں 510 میں سے 503مقدموں کی تفتیش پوری ہوچکی ہے صرف سات مقدموں کی تفتیش پوری نہیں ہوئی ہے کیونکہ ایس آئی ٹی کو ان معاملوں میں لیب سے تکنیکی رپورٹ نہیں ملی۔ فساد کے معاملوں میں اب تک 1481لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں 25لوگ اجتماعی زنا بالجبر کے 6مقدموں کے ملزم ہیں۔ ایس آئی ٹی بہت سے معاملوں میں کلوز رپورٹ داخل کرچکی ہے۔ ریاستی حکومت نے 9ستمبر 2013کو جسٹس وشنو سہائے کی سربراہی میں ایک رکنی جانچ کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن نے ابھی تک اپنی رپورٹ نہیں دی ہے۔ ایس آئی ٹی کی کلوز رپورٹ سے یہ سوال ہنوز تشنہ ہیں کہ جن مقدموں کی جانچ پوری ہوگئی کیا ان سب میں کلوز رپورٹ داخل کی گئی یا کچھ مقدموں میں ملزمان پر الزام بھی ثابت ہوا، اگر ثابت ہوا تو ان کی تعداد کتنی ہے اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی وغیرہ۔
قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت نے جیلوں میں بند بے قصور مسلمانوں کو رہا کرانے کے لیے عدالتوں سے تو رجوع کیا لیکن اس معاملے میں کوئی ٹھوس پیروی نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں ریاستی حکومت کی عرضی کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ مرکزی قانون کے تحت آتے ہیں اس لیے انہیں مرکز سے رابطہ کرکے اجازت لینی ہوگی۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت کے محکمہ قانون کو یہ نکتہ نہیں معلوم تھا کہ اس معاملے میں کیا پہل کرنی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے نمائندے برابر اس بات کو دیدار میں ہے کہ ان کی حکومت کے دور میں دہشت گردی کے نام پر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی جبکہ رہائی منچ اور دیگر تنظیمیں اس کو مسترد کرتی ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیوجی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سال برائے 2014 میں پورے ملک میں 644فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات ہوئے جس میں 95جانیں گئیں اور 1921 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر واقعات اترپردیش میں ہوئے جن کی تعداد 133ہے۔ مظفرنگر فساد کے بعد متھرا، فیض آباد میں قتل اور مساجد پر حملہ، بریلی میں رمضان کے موقع پر دوبار گولیاں چلیں، غازی آباد میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی، 6مسلم نوجوانوں کا قتل اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں پر مقدمہ چلا، آئی پی ایس افسر ضیاء الحق کا بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ پرتاپ گڑھ میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور درگاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ رہائی منچ کا دعویٰ ہے کہ سماج وادی حکومت کے قائم ہوتے ہیں 2012 میں سیتاپور سے بشیر، اعظم گڑھ کے ایک مدرسے کے طالب علم سجاد بھٹ اور وسیم بھٹ کی گرفتاری سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ 2014کے لوک سبھا انتخابات اور یوپی ضمنی انتخابات کے درمیان اتنا بڑھ گیا کہ مرزاپور، فتح پور، میرٹھ، بجنور اور سہارنپور سے مسلسل گرفتاریاں ہوتی رہیں اور لکھنؤ جیل سے لاتے وقت جس طرح خالد مجاہد کی مشتبہ موت ہوئی اب اسی جیل میں حکام مبینہ طور پر کرائے کے غنڈوں کا سہارا لے کر طارق قاسمی کے قتل کی سازش رچ رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
یہ اترپردیش کی حکومت کا مختصر جائزہ ہے کیونکہ اس کو پارٹی کے انتخابی منشور اور سرکاری اشتہار میں اقلیتوں سے متعلق نکات تک محدود رکھا گیا ہے البتہ فرقہ وارانہ صورت حال کو اس میں شامل کیا گیا ہے وہ بھی بہت ہلکے انداز میں۔ اس لیے بہت سے ایشوز رہ گئے ہیں جن پر روشنی نہیں پڑسکی ہے لیکن سماجوادی پارٹی کے وعدوں اور دعوؤں کو جس طرح سامنے لایا گیا ہے وہ اس کی کتھی اور کرنی کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پارٹی کے مسلم لیڈران ان امور پر کیوں خاموش ہیں وہ اس پر کوئی آواز کیوں نہیں اٹھارہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کانگریس کی طرح سماجوادی پارٹی حکومت بھی یہ مان کر چل رہی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل ہوں یا نہ ہوں کیونکہ ان کا ایجنڈہ تو مودی کو ہرانا ہے۔ ویسے مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اگر ان کے مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تہیہ کررکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سے چشم پوشی کرے گی اور اگر انگریزی روزنامہ ’ایشین ایج‘ کی خبر کو مانیں تو اکھلیش حکومت نے مسلم پرست والی اپنی تصویر کو بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اخبار کے مطابق حالیہ دنوں میں جس طرح چار اسکیمیں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے شروع کی ہیں اور اس میں سبسڈی کا نظم کیا ہے۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت ’مسلم پریم‘ سے باہر نکلنے کے مشن پر گامزن ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اکھلیش حکومت کا مسلم پریم تھاہی کب جو وہ اس سے باہر نکلنے کی کوشش کررہی ہے۔ انتخابی منشور تو اس وقت تیار کیا گیا تھا جب اکھلیش میں ہر سیاسی پارٹی اپنی قسمت آزما رہی تھی اور خود سماج وادی پارٹی کو یہ امید نہیں تھی کہ اسے اتنی زبردست کامیابی حاصل ہوگی۔ جب اسے یہ کامیابی حاصل ہوگئی تو تین سال بعد اس نے اپنا یہ روپ دکھانا شروع کردیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اکھلیش حکومت مسلم مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے انہیں کس طرح کرتے ہیں اور مسلم لیڈر شپ کا رول کتنا موثر ہوتا ہے؟




Back   Home