مودی کے آنے پر ملک کو کیا قیمت چکانی پڑے گی؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم

16 ویں لوک سبھا انتخابات میں جس مودی لہر یا مودی آندھی کا گن گان میڈیا کے ذریعہ کیا جارہاہے، اس کی پرتیں خو دمیڈیا کے ذریعہ ہی کھلتی جارہی ہیں۔ انڈیا ٹی وی کے ایڈٹوریل ڈائریکٹر کا استعفیٰ بھی اسی ضمن میں دیکھا جارہا ہے۔ خود انھوں نے بھی یہی الزام لگایا ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مودی کی امیچ میڈیا کے ذریعہ بنائی جارہی ہے اور یہ کہ انڈیا ٹی وی پر دکھایا جانے والا مودی کا نٹرویو فکسڈ تھا۔ ان کی اس بات سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ مودی کی مصنوعی لہر بنائی جارہی ہے اور اس کام میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ لگا ہوا ہے۔ ابھی مودی کی مصنوعی لہر موضوع بحث ہی تھی کہ بھارتیہ جتنا پارٹی کی ایک اہم اور سینئر لیڈر اوما بھارتی نے ایک ویڈیو کیسٹ میں انکشاف کیا کہ مودی ’ وکاس پرش‘ نہیں ’ وناش پرش‘ ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو شخص خود اپنی پارٹی کارکنوں کے نزدیک ’ وناش پرش‘ ہے، اس کی لہر کیسے اور کیونکر ہوسکتی ہے؟ ویسے بھی پارٹی یا مودی کی جانب سے مذکورہ دونوں ہی واقعات پر کسی طرح کی تردید بھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
بات انڈیا ٹی وی کے ایڈٹوریل ڈائریکٹر کے اس انکشاف سے زیادہ ان کی اخلاقی جرأت کی ہے جس کا انھوں نے اس وقت اظہار کیا جب زبانوں کو خاموش کردیا گیا تھا۔ میڈیا سے جڑے لوگ اپنے ضمیر سے سودا کرتے نظر آرہے تھے۔ اس ماحول میں انکا جرأت مندانہ قدم یقیناًچوتھے ستون کو مضبوط کرے گا۔ جمہوری نظام میں چوتھے ستون کی اہمیت وافادیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسی میڈیا کے ذریعہ خاص کر الیکٹرانک چینلوں پر انتخابات سے متعلق جتنے بھی سروے دکھائے جارہے ہیں ان سب میں مودی کو سبقت لے جاتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مودی ملک کے رائے دہندگان میں اس قدر مقبول ہیں کہ ہرکوئی انھیں پسند کررہا ہے یا پھر مذکورہ چینل کے ذمہ دار اور پارٹی لیڈران کی رائے صحیح ہے کہ ان کے حق میں مصنوعی لہر بنائی جارہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مصنوعی لہر بھی رائے دہندگان کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے جو باعث تشویش ہے۔
اس مصنوعی اور فرضی لہر کو محض ہمارے ملک میں ہی خطرناک نہیں مانا جارہا ہے بلکہ لندن کا معروف اخبار ’ گارجین‘ اور امریکا کا ’ واشنگٹن پوسٹ‘ بھی اسی رائے کا اظہار کرچکا ہے۔بین الاقوامی میگزین ’ دی اکنامسٹ‘ نے بھی اپنے تازہ شمارے میں اسی پر فوکس کرتے ہوئے کور اسٹوری شائع کی ہے۔ ایسی صورت میں یہ جاننا یقیناًضروری ہوجاتا ہے کہ اگر مودی اس مصنوعی لہر اور تمام خطرات کے باوجود اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں تو ملک اور باشندگان ملک بالخصوص مسلمانوں کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی؟ کیا یہ قیمت ان کو ملک کے دستور میں درج اپنے حقوق واختیارات سے دستبردار ہونے کی صورت میں چکانی پڑے گی؟
ایک ایسا شخص جس کے بارے میں خود اس کے پارٹی کے لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ ’ وناش پرش‘ ہے۔ اس کے آنے سے اس ملک کے آئین کی بالادستی اگر ختم نہیں ہوگی تو اس کی عظمت بلند ہوگی یہ بات بھی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ انصاف جو کہ اس دستور کی روح ہے کا گلا اس طرح گھونٹ دیا جائے گا کہ 2002 سے لیکر آج تک جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں ان کا فیصلہ کبھی نہیں آئے گا اور اگر کبھی آبھی گیا تو مجرم کو کلین چٹ کے ساتھ بالکل اسی طرح جس طرح گجرات فسادات میں مودی کو کلین چٹ ملی ہے۔ ان فسادات کو لیکر جو بھی آفیسرس ٹیس یا درد محسوس کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مجرم کو سزا ملے۔ اس کے لئے سچائی کو سامنے لانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا، اس کے باوجود اگر اس نے تھوڑی بھی جسارت کی تو جس طرح کئی آفیسر گجرات کی جیل میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے سبب بند ہیں۔ اسی طرح کا سلسلہ مودی کے وزیرا عظم بننے کے بعد جاری رہے گا۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے عتاب سے قائدین ملت بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ وہ قائدین جو ملک کے دستور پر یقین رکھتے ہیں اس کے قانون پر بھروسہ کرتے ہیں، جیوڈیشیل سسٹم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ان ملی لیڈروں کو مختلف حیلے بہانوں کے تحت پھنسایا جائے گا اور گرفتار کیا جائے گا تاکہ اقلیتوں کے لیڈروں کے جذبہ اور حوصلہ کو ختم کیا جائے، اور اس سے قوم کو متاثر کیا جائے جیسا کہ ہٹلر نے اپنے عروج میں کیا تھا۔ اسی کے ساتھ منو اسمرتی کے نفاذ کے راستے کو ہموار کرتے ہوئے دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے لیڈروں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ سخت معاملہ کیا جائے گا تاکہ دستوری تحفظ جو انھیں حاصل ہے وہ واپس لے لیا جائے اور ان کی حیثیت خادم اور خادماؤں سے زیادہ باقی نہ رہے۔ ابتدا میں حملہ کا نشانہ اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو بنایا جائے گا لیکن دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع ہوگا اور کمزور طبقات بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس طرز عمل سے ملک کا سیکولر فیبرک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا اور سیکولر دستور کی جگہ منو اسمرتی لے گی اور ملک اس برہمن وادی نظام پر گامزن ہوگا جہاں کسی دلت اور کمزور طبقات کو دستوری حقوق حاصل نہیں ہوں گے اور مسلمانوں کو دو نمبر کا شہری بنایا جائے گا۔
اس پس منظر میں اگر مودی کی حکومت بنتی ہے جس کے امکانات بظاہر کم ہیں لیکن میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جارہی باتوں پر یقین کیا جائے تو یہ بات صاف لفظوں میں کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے وہ باصلاحیت افراد جن میں ابھی انسانیت باقی ہے وہ اس کی کابینہ میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ ملک کے دستور کو کیسے تبدیل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے 15/17 جج کی بنچ کیسے تشکیل دی جائے تاکہ اس کی اکثریت کا فیصلہ بنیادی حقوق کو تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ دے سکے اور اس کی بنیاد پر آر ایس ایس کے نظریہ منو اسمرتی کو عملی شکل دی جاسکے۔ جب یہ شکل پیدا ہوگی تو پڑوسی ملکوں سے اس کے تعلقات خراب ہونے کا بھی امکان پیدا ہوگا کیونکہ مودی ان لوگوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جس کا اظہار وہ گجرات اسمبلی انتخابات کے موقع پر کئی بار کرچکے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس لئے سبق سکھانا ہے کہ گذشتہ حکومتوں نے ان کی منھ بھرائی کے نام پر کچھ نہیں دیا لیکن زندہ رہنے کا حق دیا لیکن اب اس منھ بھرائی کے نام پر زندہ رہنے کی دشواریاں پیدا کی جائیں گی۔ پڑوسی ملکوں نے دہشت گردی کو بڑھاوا دیا اس لئے اس کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ اس کا اثر یہ ہوگا کہ پوار املک تشدد، انتقام اور جذباتیت کے سیلاب میں ڈوب جائے گا اور ملک ایک ایسی صورتحال کا شکار ہوگا جہاں ایک دوسرے پر اعتماد، مذہبی رواداری، ذات برادری کے ماننے والے اور مختلف عقائد کے حاملین سبھی شکوک وشبہات کے دائرے میں آجائیں گے۔ اس کا براہ راست فائدہ چین کو ہوسکتا ہے جو مختلف مواقعوں پر گھس پیٹھ کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے سرحد پر اکثر وبیشتر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب یہ اندرونی خلفشار پیدا ہوگا تو اس کا فائدہ دشمن کو ملے گا جیسا کہ ہمیشہ سے دستور رہا ہے۔ وہ دشمن جو ہماری کمزوریوں او رکمیوں سے اچھی طرح واقف ہے۔
اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ آر ایس ایس کی سربراہی کبھی چھوٹی ذات کو قبول نہیں کرسکتی۔ جس انداز سے مودی نے 2000 مسلمانوں کا قتل عام کرایا جیسا کہ اس پر الزام ہے اس کو برہمن واد کی فلاسفی نے ہیرو کی شکل دے دی۔ مودی کو ہیرو بنانے میں ایسا لگتا ہے کہ صہیونی لابی نے بھی اپنے تجربات اور اپنے سرمایہ کے ذریعہ اسے مزید مضبوط بنانے میں مدد کی۔ اب اس کے سامنے یہ ایشو ہوگا جیسا کہ مذکورہ سطور پر ذکر کیا گیا ہے کہ ملک کے سوشل فیبرک کو ختم کرکے ملک کے دستور کو تباہ وبرباد کیا جائے۔ اگر بالفرض مودی یہ کام نہیں کرسکا تو ان کا وزیر اعظم کا خواب ہمیشہ کے لئے چکنا چور ہوجائے گا اور اگر مودی نے وزیر اعظم کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں لیکر استعمال کرنا شروع کیا تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ شاید آر ایس ایس کا وجود خطرے میں آجائے۔ہٹلر کی تاریخ یہی بتاتی ہے اور ہٹلر کی روح کو یقینی طور پر مسرت ہورہی ہوگی کہ 21 ویں صدی میں اس کا ایک نیا شاگرد بن گیا ہے۔
اگرچہ اس مضمون کو تصوراتی کہا جاسکتا ہے مگر حقائق پر نگاہ رکھنے والے اس کے تجزیہ نگار اور تاریخ سے سبق لینے خواہ وہ کسی آئیڈیا لوجی کے ماننے والے ہوں وہ کم ازکم اسے اندیشہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں اسے محض تصوراتی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے 16 ویں پارلیمانی انتخاب کا تقاضہ ہے کہ نہایت سنجیدگی، متانت، فہم، حالات کا ادراک، آر ایس ایس اور مودی کی چالاکی وعیاری کو سمجھتے ہوئے ملک کے تمام شہری بالعموم اور رائے دہندگان بالخصوص اپنے دستوری حق یعنی ووٹ ڈالنے کا بھرپور استعمال کریں اور جس اندیشہ کا اظہار کیا جارہا ہے اس اندیشہ کو ختم کرنے یا دور کرنے، ملک اور دستور کے تحفظ اور آپسی بھارئی چارگی کو محفوظ کرنے کے لئے اپنی انگلیوں کا اس طرح استعمال کریں کہ ہٹلر نما انسان اس ملک کا حکمراں نہ بن سکے۔ یاد رہے کہ وقت گذر جانے کے بعد افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اس کھیت کی طرح ہے جس کھیت کے دانے چڑیا چگ جاتی ہے تو اس کھیت میں لہلاتی فصل پیدا نہیں ہوتی ہے۔
( مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home