اترپردیش اسمبلی انتخابات اور رائے دہندگان کی حکمت عملی
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
اترپردیش کے سات مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا اور رائے دہندگان کے ووٹ ای وی ایم مشین میں محفوظ ہو گئے، جبکہ دوسرے مرحلے کے انتخاب کے لیے تیاری اپنے شباب پر پہنچ گئی ہے۔ ریاست کی جو صورتحال ہے اس میں مقابلہ سیکولر بنام فرقہ پرست پارٹی ہے۔ جس کی وجہ سماج کے کمزور طبقات بشمول دلتوں، آدی واسیوں، حاشیہ پر رہ رہے، اقلیتوں اور مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ کیا کریں جس سے فرقہ پرست قوتوں کو شکست دی جا سکے، اور ان طبقات کے حقوق واختیارات نہ صرف محفوظ رہ سکیں، بلکہ ملک کا دستور جو سیکولر اور جمہوری نظام پر مبنی ہے کی بالادستی برقرار رہے اور ملک میں کثرت میں وحدت کا فلسفہ پروان چڑھے۔ یہ کام اگر مشکل نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ خواہش کا اظہار کیا اور وہ ہو گیا، بلکہ اس کے لیے ملک کے ان سبھی طبقات کو جن کے حقوق واختیارات کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے متحد ہو کر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گا، تبھی کسی مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک فرقہ پرست قوتوں کا معاملہ ہے سیکولر پارٹیاں کھلے عام یہ کہہ رہی ہیں کہ فرقہ پرستوں کو دستور کے الفاظ اور روح دونوں پر یقین نہیں ہے۔ اس لیے یہ آواز ان کی طرف سے اٹھتی ہے کہ اسے تبدیل کیا جائے۔ عملی طور پر تو آر ایس ایس کے اس حکم کو بی جے پی قبول بھی کر رہی ہے اور اسی کے مطابق کام کر رہی ہے۔ حکومت کے اب تک جتنے بھی وعدے ہیں وہ جملے بازی ہی ثابت ہوئے ہیں۔ عملی طور پر ان کا نفاذ نہیں ہوا ہے اور اس بات کو خود پارلیمنٹ نے بھی قبول کیا ہے، جبکہ مہنگائی، لاء اینڈ آرڈر، بے روزگاری جیسے مسائل کا ہر کوئی شکار ہو رہا ہے۔ حکومت صرف انہیں خوبصورت اور لبھاونے نعرے دے رہی ہے، جس سے اس کا پیٹ نہیں بھر رہا ہے۔ بلکہ اس کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں نوٹ بندی کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس طرح روزانہ مزدوری کرنے والے مزدور کی یومیہ آمدنی ختم ہوئی اور انہیں بے روزگاری کے سبب واپس اپنے گاؤں جانا پڑا وہ آج بھی اس پریشانی سے نہیں نکلے ہیں۔
بی جے پی ملک کے دستور اور نظم ونسق کے معاملے میں کس طرح قانون کو نظر انداز کر کے کام کرتی ہے وہ قانون جو غریبوں، کمزوروں اور محروم طبقوں کو انصاف دیتا ہے اور انصاف کو بنیاد بناتا ہے، کو نظر انداز کر نے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جب مدھیہ پر دیش حکومت نے باضاطہ اس بات کو تسلیم کرلیا کہ 8 سیمی کارکن جیل سے بھاگے جنہیں پولس نے پکڑلیا اور انہیں گو لی مار دی سوال یہ کہ جو جیل سے بھاگے انہیں عدالتی دائرے میں کیوں نہیں لایاگیا انہیں گولی سے ماردینا کیا یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے یہ ان کی سرجیکل اسٹرائک ہے۔ جب اس پر سوال اٹھے تو مدھیہ پر دیش سرکار کی طرف سے یہ کہاگیا کہ پولس پر سوال نہیں اٹھنے چاہئے بلکہ اسے شاباشی دینا چاہئے۔ پونے تین سال کی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی بلکہ اس کا ثبوت مدھیہ پردیش کی حکو مت او ر وہ کارنامہ ہیں جس میں اس نے جیل سے بھاگے قیدیوں کو گولی ماردی ۔
جوصورت حال دکھائی پڑرہی ہیں اس میں جہاں سیکولر فورسیزسماجوادی پارٹی۔ کانگریس گٹھ جوڑکا گراف بڑھتا نظر آرہا ہے، وہاں بہت سے حلقہ انتخابات میں بہوجن سماجوادی پارٹی بھی آگے بڑھتی دکھائی پڑ رہی ہے جبکہ بعض جگہوں پر بی جے پی نظر آرہی ہے۔ اس لئے عوام کو بالعموم اور سماج کے کمزور طبقات کو بالخصوص سیکولر فورسیز کو جتانا چاہئے عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کے دعوؤں کی عکاسی اس کے بجٹ میں بھی نہیں ہوئی، جس سے اس کے وعدے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ حکو مت کے منتری ہو ں یا سنتری ان کے لیڈران ہندو مسلم و دیگر اقلیات و کمزور طبقات کو محکوم سمجھتے ہوئے مختلف حیلے بہانے سے جذبات بھڑکانے کاکام کررہے ہیں ان کے کارکنان گھر گھر غلط پہنچا رہے ہیں اور پرو پیگنڈے کر رہے ہیں۔ کیا تین سال کی حکو مت یہ اعلان نہیں کر رہی ہے کہ بی جے پی دستور کے مطابق نہ برابری چاہتی ہے اور نہ کورٹ کے جج کا انتخاب ہورہا ہے جہا ں سے انصاف میں تاخیر نہ ہو۔ پولس جو غلط انداز میں غریبوں، دلتوں، اقلیتوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص مختلف انداز سے پھنسارہی ہے اور سزا دیتی ہے اس پر کو ئی قانو ن نافذ نہیں ہوتا، کیونکہ یہ رائے دہند گان کے لئے کافی نہیں۔ دوسری طرف جو عوامی لیڈر، دانشور ہیں اور دستور کی بالادستی، اس کے مطابق حکمرانی اور بر تر ی کو دیکھنا چاہتے ہیں و ہ بھی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ٹکراؤ سیکولر پارٹیوں میں نظر آرہا ہے اور اکثر وبیشتر جگہوں پر بی جے پی دوسری پوزیشن میں نظر آرہی ہے ۔
رائے دہند گان کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے جن امید واروں کو میدان میں اتارا ہے ان میں کئی داغی امیدوار بھی ہیں یعنی ایسے امید وار جن پر کسی جرم کی وجہ سے کیس درج ہیں۔ ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر) کے تجزیہ کے مطابق گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 32 فیصد داغی امیدوار میدان میں تھے، جبکہ اس بار پہلے مرحلے میں سیاسی پارٹیوں نے 20 فیصد داغی امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے اور دوسرے مرحلے میں یہ تعداد 15 فیصد ہے۔ اس معاملے میں سبھی پارٹیاں شامل ہیں لیکن جو پارٹی خود کو صاف ستھری اور دوسروں سے الگ بتاتی ہے اس کے یہاں داغی امیدواروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ کی بالترتیب 73 اور 67 کل 140 سیٹوں پر 229 امیدواروں پر مقدمہ درج ہے۔ اس بات کی بھی رائے دہندگان کو کوشش کرنا ہو گی کہ جو داغی امیدوار ہیں انہیں مسترد کریں تاکہ سیاست میں صاف ستھری امیج کے لوگوں کے آنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔ یہ دستور کی منشا بھی ہے اور ایسا کر کے ہم دستور کی برتری کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ مقامی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت ہی سمجھداری اور فراست سے خود بھی انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالیں اور سیکولر پارٹی کو مضبوط کریں۔
اس لحاظ سے رائے دہندگان کی یہ ذمہ داری بڑھتی جا رہی ہے، کیوں کہ عام انسان ہی حکومت کی غلط پالیسیوں، غلط کارروائی اور طاقت کے غلط استعمال کا شکار ہوتا ہے۔ کسانوں کی خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، بالخصوص کمزور طبقات، آدی واسی ومسلمان جیل کی کال کوٹھریوں میں بھرے جا رہے ہیں۔ ان پرچارج شیٹ بھی ایک زمانے کے بعد پیش کی جاتی ہے۔ ٹارچر ہر طرح سے عام انسان ہی ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ عام آدمی نے اسے نہیں سمجھا تو سزا کمزور لوگوں کو ہی بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ موقع رائے دہندگان کو ملا ہے، کیونکہ آپ کو نہ مال وزر ملنے والا ہے اور نہ ہی کوئی منصب۔ نوٹ بندی اس کی بہترین مثال ہے، جہاں اپنا مال بھی اپنی مرضی سے نہیں مل سکتا۔ اس لحاظ سے اترپردیش بالخصوص اور دیگر ریاست بالعموم جہاں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اپنے ووٹ کی قیمت کو سمجھیں، وقت کی قدر کریں اور جو موقع ملا، اس موقع کی نزاکت کو سمجھیں، تاکہ نہ صرف ایک شخص، بلکہ پورے کنبہ، دوست واحباب کوبھی جمہوریت کی قدر، اس کو سمجھنے جو حق ملا ہے کے ذریعہ اپنی مرضی کی حکومت لا سکتے ہیں جو دعوی نہ کرے بلکہ کام کرے، جان ومال کی حفاظت کرے، ناکہ کسی تعصب کی بنیاد پر آپ کو پھنساتی رہے یا فرضی مقدمات اور دہشت گردی کے نام پر پھنسایا نہیں جا سکے۔ یہ موقع ہے جس کا استعمال کرنا ہے، دانشمندی اور فراست سے۔ اٹھیں کمربستہ ہو جائیں اور اپنی انگلی کا صحیح استعمال کریں، تاکہ جمہوری اقدار بھی قائم رہے اور جمہوریت بھی مضبوط رہے۔

مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں




Back   Home