سورہ ’’العصر ‘‘اور حالات حاضرہ

ملکی وعالمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے یکم جنوری ۲۰۱۵ء کو آئی او ایس کے تمام ذمہ داران واسٹاف اور دوسرے ادارے کے ذمہ داران واسٹاف کے سامنے مذکورہ سورہ ’’العصر‘‘ کی روشنی میں پوری انسانیت بالخصوص مسلمانوں کے تئیں زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج وحالات پر روشنی ڈالی اور اس حقیقت کی طرف اس سورہ کی تشریح کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ہماری بہت سی ذاتی کمیاں ہیں جنہیں دور کر کے ہم ایک صالح معاشرہ کی شکل میں سامنے آسکتے ہیں جو امن وامان اور اتحاد واتفاق کا گہوارہ بن سکتا ہے اور ہمارے اندر استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔


شیطان ہمیشہ انسان کے مد مقابل کھڑا رہتا ہے اور مسلسل اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان پیغام الٰہی سے دور ہو جائے نیز دیگر تمام عیوب ونقائص کے ساتھ ساتھ آپسی انتشار وافتراق کے نتیجے میں اللہ کے آفاقی وہمہ گیر تصور انسانیت کو عملی طور پر اتنا فراموش کر دے کہ باہمی کشمکش اس کی زندگی کا حصہ بن جائے۔ آج ہم درحقیقت شیطان کے اسی فریب میں آ چکے ہیں۔ انسان کے فلاح وخسارہ پر اس سورہ میں زمانے کی قسم کھائی گئی ہے۔ چیئرمین صاحب نے دوران گفتگو اس خاص نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ زمانے کے نشیب وفراز پر نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔ یہ اپنے اندر ہزاروں پہلؤوں کو سموئے ہوئے ہے۔ اس کا تعلق ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے ہے اور ماضی انسان کے لیے حال کا آئینہ ہوتا ہے جس میں اسے مستقبل کا لائحۂ عمل نظر آسکتا ہے، اگر وہ شعورِ عبرت رکھتا ہو۔ قرآن کریم میں قوموں کے واقعات بکثرت بیان کیے گئے ہیں تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے۔ زمانے کی برق رفتاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر عملی کوشش کی جائے تو یقیناً کامیابی انسان کے قدم چومے گی۔ اس کے لیے برق رفتاری، تیز رفتاری اور مستعدی کے باہمی ربط کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں نے مستقبل کے لیے زمانے کی رفتار کو نہیں پہچانا، اسے گرفت میں نہیں لیا اور ماضی کے سرمایہ ہی کو سینے سے لگائے رکھنے پر اکتفاء کیا۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ زمانہ کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتا بلکہ کائنات میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور اپنے ساتھ ہزاروں مسائل لے کر آتا ہے۔ تو جس نے اس کی رفتار کو نہیں پہچانا اور وقت جیسے قیمتی سرمایہ سے فائدہ نہیں اٹھایا وہ یقیناً جمود کا شکار ہو گا، جس کا نتیجہ ہمہ گیر خسارہ ہے اور اسی کا ایک حصہ باہمی اتحاد واتفاق کا فقدان ہے، کیوں کہ جمود ہو اور انتشار نہ ہو یہ ایک ناممکن امر ہے۔


فطرت انسانی کسی بھی طرح کا خسارہ ونقصان قطعاً پسند نہیں کرتی۔ اس سے بچنے کی پہلی بنیاد ایمان ہے اور ایمان کا ایک مظہر امن وسلامتی ہے۔ لہٰذا اہل ایمان کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کائنات کے مکمل تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو امن وآشتی ملے۔ اللہ کے اسمائے حسنیٰ اس کی بے پناہ قدرت وطاقت اور اس کی غیر محدود رحمت ومحبت پر کامل اعتماد کرتے ہوئے ایمان کے عملی تقاضے کو پورا کرنا امن وآشتی اور اتحاد واتفاق کے لیے انتہائی ضروری ہے۔


اس دور حاضر میں مسلمان کئی پہلؤوں سے کمزوری کاشکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی صف بندی ویکجہتی کے لیے جہاں بہت سی کوششیں ہونی چاہیے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جہالت سے پرے رہتے ہوئے علم کی بنیاد پر اختلاف کے اسباب تلاش کئے جائیں اور انہیں دور کرنے کی راہیں بھی تلاش کی جائیں۔ نئے نئے فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں، ان کی حقیقتوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مفاد اعظم کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ فتنوں کے دامِ فریب میں پھنسنے کی وجہ سے مفاد عامہ سے ہماری دوری لازماً بڑھتی ہے اور انتشار وافتراق کی راہ کھلتی جاتی ہے ۔ لہٰذا کثرت میں وحدت (Unity in Diversity) کو مد نظر رکھتے ہوئے وسعت کو فروغ دینے پر توجہ دی جائے اور اس کے لیے انفرادی واجتماعی طور پر مثبت پہلؤوں کو اجاگر کرنے اور منفی پہلؤوں سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ عملی طریقہ ہے جسے اختیار کر کے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور ایک پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں تاکہ ہماری صفوں میں اتحاد پیدا ہو اور اللہ کی مدد حاصل ہو۔
اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین




Back   Home