سورۃ ’’الناس‘‘ اور حالات حاضرہ


ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہو ئے خیر امت ہونے کی حیثیت سے اور’’ و تواصو بالحق وتواصو بالصبر‘‘کے اصول پر عمل کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ابجیکٹیو اسٹڈیز کے چےئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ۳دسمبر ۲۰۱۴ کو تمام ذمداران و اسٹاف آئی او ایس اور دیگر اداروں کے ذمہ داروں کے سامنے اس سورہ کی روشنی میں پوری دنیا با لخصوص ہندوستان کے پس منظر میں مسلمانوں کے بگڑتے حالات اور ان کے خلاف ہو رہی سازشوں پر گفتگو کی، اور آپ نے فرمایا کہ در اصل یہ سب غلط فہمیوں کے پروپگنڈے کا ایک بڑا حصے جو وسوسہ کی شکل میں ہمارے دلوں میں پنپتا ہے اور جس کے بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں۔آپ نے اس سورہ کی جامع تشریح کرتے ہوئے ایک خاص نکتہ پر توجہ مرکوز کرائی اور بتا یا کہ ہمیں وسوسے کے شر سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ جب کوئی کسی وسوسے کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ تہمت درازی غیبت وغیرہ جیسے خبیث اعمال کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے درست نہیں ہے ۔


آج کے دور میں مسلمانو کے دلوں میں غلط فہمیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اسے وسوسہ کے ذریعہ دلوں میں ڈالا جا رہا ہے،مسلمانوں کی آخرت اور دنیا اس مہم کے ذریعہ خراب کی جا رہی ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پراعتماد کھو چکے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ بد امنی ،بد اخلاقی،نا اتفاقی اوربداعتمادی کا شکار ہو چکا ہے ۔


انسان تو وسوسے کا پلندہ ہے اس خطرناک بیماری سے کوئی بچ نہیں سکتا الایہ کہ رجوع الی اللہ کرے اور اپنے رب ،مالک اور الہ پراعتماد کرے اوررحمن و رحیم کے فضل کو تلاش کرے مگر اس کے لئے کوشش کرنا ہمارا کام ہے اور ہمیں اس شر سے محفوظ رکھنے والی ذات سب سے طاقت ور اور ہمارا حامی اور مدد گار ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج اس کے نتیجے میں مسلمانو کے درمیان غلط فہمیاں بڑے پیمانے پر پیدا ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے کی غیبت جیسے لعین عمل کے شکار ہو رہے ہیں جبکہ یہ بات قرآن کا ہر قاری جانتا ہے کہ غیبت کرنا ایسیا ہی ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو،اس کے با وجود ہمار ے وقت کا ایک حصہ غیبت گوئی میں گذرتا ہے ۔


موجودہ دور میں اسی وسوسے کے ذریعہ مسلمانوں کو کمزورکرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں ایسے افراد اور شیاطین لگے ہوئے ہیں جو بار بار یہ کام کرتے ہیں اور روپوش ہو جاتے ہیں ایسے افرادبڑے ہی نقصان دہ ہوتے ہیں ہمیں ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے چونکہ خناس کی صفت میں یہ بات پائی جا تی ہے کہ وہ پلٹ پلٹ کے وسوسے ڈالتے ہیں او ان کے وسوسے بڑے مضبوط کرتے ہیں عام طور پر انسان اس کا شکار ہو جاتا ہے اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں وسوسہ نہ ڈال سکیں ۔مذکورہ اسیے صورت حال میں اعتماد،یقین اورایک دوسرے کے تعلق سے حسن ظن کی ضرورت ہے اور یہی وہ ہتھیار ہیں جو ہمیں وسوسے والی بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور پھرہم ترقی کی راہ پرگامزن ہو سکتے ہیں۔اور اللہ کی پناہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔آمین۔




Back   Home