مرکزی حکومت کا ایک ماہ
صبح کی کرنیں دن کا پتہ دیتی ہیں
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز میں برسر اقتدار این ڈی اے قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک ماہ کے دوران بظاہر کوئی ایسے بڑے کام یا اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ بی جے پی اپنے سابقہ ایجنڈے پر گامزن ہے لیکن بین السطور میں جو کام انجام دیے گئے ہیں ان کے جائزے سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ جس انداز سے کام کیا جارہا ہے وہ اپنے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انھیں نہایت خاموشی سے انجام دیا جارہا ہے اور ایسے امور پر فوکس کیا جارہا ہے جس سے توجہ ہٹانے میں مددملے، اور جو طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے وہ جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر وزیر عظم نریندر مودی نے نوپیندر مشرا کو اپنا چیف سکریٹری بنانے کے لیے تمام ضابطوں کو نہ صرف طاق پر رکھ دیا بلکہ ان میں ترمیم کرکے انہیں چیف سکریٹری بنایا جو اس ملک کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد کالی دولت کا پتہ لگانے کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کالی دولت اور بدعنوانی کے خلاف کتنی سنجیدہ ہے۔ دوسری جانب اپنے وزراء کو اتنی زور کا جھٹکا دیا جس کی انھیں توقع بھی نہیں تھی۔انھیں اپنے اسٹاف میں سکریٹری اور او ایس ڈی کو رکھنے سے پہلے کیبنٹ کی منظوری لینے کے لیے کہا گیا۔ اس طریقۂ کار سے ہی یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ ہمارا ملک کدھر جارہاہے؟ بلاشبہ یہ ملک دستور ی نظم کے تحت پارلیمانی نظام پر مبنی ہے لیکن موجودہ وزیر عظم کے کام کرنے کا انداز صدارتی نظام جیسا ہورہا ہے۔ صدارتی نظام میں حکومت کے تمام کل پرزے صدر کو براہ راست جواب دہ ہوتے ہیں۔ کابینہ جس کا سربراہ ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے اس سے منظوری حاصل کرنا اسی ذیل میں دیکھا جارہا ہے حتی کہ تینوں افواج کے ذمہ داروں کا ہر مہینے وزیر اعظم سے ملاقات کرنا بھی اب تک کی جمہوری روایت کے خلاف ہے۔
پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے خطبہ سے حکومت کی جو تصویر سامنے آئی تھی۔ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت سے خوش کن نعروں کے ساتھ اپنی تقریر مکمل کی اور وزراء کو 100دن کا ایجنڈہ تیار کرنے پر زور دیکر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس ورک پلان ہے لیکن وزیر اعظم نے پونے کے واقعات پر کوئی گفتگو نہیں کی اور نہ ہی وہاں کے انجینئر محسن شیخ کے قتل پر کچھ کہا۔ بدایوں میں دو دلت لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری اور پھر ان کے قتل پر کچھ نہیں بولے، نہ ہی ملک میں گرتے لاء اینڈ آرڈر پر کوئی بات کی جس کی امید پورا ملک کررہا تھاکہ وزیر اعظم اس کے عملدر آمد پر زور ڈالتے ہوئے بات کہیں گے۔ وزیر اعظم نے ترقی کی بات کی اور بطور حوالہ اپنی ریاست گجرات کے ایک مسلم سائیکل مستری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تیسری نسل آج بھی یہی کام کررہی ہے۔ ان کی ریاست کی ترقی کا یہ وہ ماڈل ہے جسے وہ خود اور میڈیا پیش کررہا ہے۔ لیکن 12سال کی حکمرانی میں انھوں نے اس طبقہ کے ساتھ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جس سے وہ ملک کے دیگر طبقات کے ساتھ ترقی کرسکے۔ کہیں ایسا تو نہیں اس کو پسماندہ بنائے رکھنے میں اس کا مسلمان ہونا ہے۔
جس لحاظ سے جیوڈیشیئری کا معاملہ ابھررہا ہے وہ بھی کافی تشویشناک ہے۔ آنے والے سالوں میں تقریباً 50فیصد جج ہائی کورٹ میں بنائے جائیں گے۔ لیکن اگر جیوڈیشیری کا انتخاب سیاسی عینک سے ہوتاہے تو ملک میں جیوڈیشیری کا جو معیار ہے وہ متاثر ہوگا۔ گوپال سبرامنیم کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ حکومت اپنی پسند کے جج کو لانا چاہتی ہے ناکہ اس کے لیے میرٹ کو ضروری خیال کرتی ہے۔ جن لوگوں نے مودی کے دست راست امت شاہ یا 2002کے گجرات فساد میں ملوث لوگوں کو بچانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ مثال کے طور پر مکل روہتگی، رنجیت کمار اور تشار مہتہ، یہ تمام ہی لوگ مودی حکومت میں قانون کے رکھوالے بنائے گئے ہیں۔ مکل روہتگی اٹارنی جنرل، رنجیت کمار سالیسٹر جنرل اور تشار مہتہ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ہیں۔ ظاہر ہے ان حضرات کی موجودگی میں اس کا اندیشہ ہے کہ صاف ستھرے اور ایماندار ذہن کے لوگوں کو شاید ہی جج کی کرسی دی جاسکے۔ موجودہ حکومت کو پورا مینڈیٹ گزشتہ حکومت کی مہنگائی اور کرپشن کے خلاف تھا۔ لیکن اب کرپشن کا عالم یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر اور اوما بھارتی کے بعد تقرری گھپلے میں آر ایس ایس سربراہ آنجہانی ایس سدرشن اور سریش سونی کا نام سامنے آیاہے اور اب پوری پارٹی انھیں تحفظ دے رہی ہے۔ کرناٹک کے یدورپا ان کی پارٹی کا جز بن چکے ہیں۔ مہنگائی ساتویں آسمان پر پہونچ گئی ہے۔ کسی میدان میں عوام کو سہولیات نظر نہیں آرہی ہے۔ بجلی، پانی، سفر، اشیائے خوردو نوش سب میں گرانی ہے، مسائل ہیں جس پر کہا جارہا ہے کہ یہ کڑوی گولی مستقبل کو ٹھیک کرنے کے لیے دی جارہی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ گولی اپنے اندر زہر رکھتی ہو جہاں غریب اور کمزور طبقات جن کی اکثریت ہے کا وجود ہی خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ ہے۔
میڈیا جمہوری نظام کا ایک بہت اہم جز ہوتا ہے جسے چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ میڈیا ابھی پوری طرح سے اپنے رول کی طرف یعنی صحیح خبر پہونچانا، صحیح تجزیہ کو سامنے لانا اور جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کمزور طبقات، پسماندہ ذات برادریاں اور جنھیں انصاف ملنے میں بہت دشواریاں ہوتی ہیں جہاں پولس اور دیگر آفیسر کی ظلم وزیادتیاں حکومت کی حمایت کے لیے آگے بڑھتی ہیں۔ ان کے کرتوت کو پیش کرنے میں ایک طرح کے کنفیوژن کا شکار لگتا ہے۔ اگر میڈیا اپنے رول میں جلد نہیں آسکا تو اس کے ہمارے جمہوری نظام کے تانے بانے پر گہرے منفی اثرات پڑیں گے۔ ان تمام باتوں کو سامنے لانا اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت نے بڑھ چڑھ کر یہ نعرہ دیا ہے کہ ’ترقی سب کے لیے، منھ بھرائی کسی کی نہیں‘ ،’مختصر حکومت اچھی حکمرانی‘۔ اگر یہ حکومت واقعی اس پر کسی تضاد کا شکار ہوئے بغیر اور کتھنی وکرنی میں فرق کیے بغیر اس کے عملی پہلو کو بڑھانا چاہتی ہے تو غریبوں کا حق اسے پہونچانا چاہیے۔ پہونچاتے وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ وہ کون ہے، کس ذات اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس کی غریبی کو دور کرنے کے لیے چھوٹی صنعتوں اور دستکاری کو فروغ دیا جائے، تبھی اس کی غریبی دور ہوگی۔ تعلیم کے میدان میں بھی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور وہاں کی آبادی اور حالات کے مطابق دیگرسہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، اور نا انصافی چاہے کسی کی طرف سے ہوچاہے ان کی فلاسفی ماننے والے جیالے نوجوانوں کی جانب سے ہو یا پولیس کی ہو یا اس کے آفیسر کی ہو اس پر فوری قدغن لگانے اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی اقلتیں بشمول کمزور طبقات اچھے دن دیکھنا چاہتی ہیں جس کا اس الیکشن میں نعرہ دیا گیا تھا۔ برے دن کی یلغار سے سارے ہندستانی شہری پریشان نظر آرہے ہیں۔
صد رجمہوریہ کے صدارتی خطبہ میں یہ تو ممکن نہیں ہے کہ غیر دانستہ طور پر خارجہ پالیسی میں خاص طور سے مڈل ایسٹ کے بارے میں ذکر نہ ہو جبکہ یہ معلوم ہے کہ زر مبادلہ اور سرمایہ کا تقریباً 70فیصد حصہ ہماری معیشت میں شامل ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شہری کے سامنے آرہا ہے اور تجزیہ نگار بتارہے ہیں کہ ہمارا جھکاؤ اسرائیل کی طرف تو بڑھتا چلا جارہا ہے اور ہم امریکا کا دباؤ قبول کرتے جارہے ہیں لیکن مڈل ایسٹ جو ہماری ترقی خاص کر انرجی اور فارن ایکسچینج کی شکل میں ہے نظر انداز کررہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری حکومت نے اس کے منفی اثرات کا جائزہ نہ لیا ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ایڈہاک ازم کا شکار ہورہی ہے اور چین کے رد عمل میں ہم بہت سارے فیصلے کررہے ہیں جس کی واضح صورتحال ہمارے سامنے اس وقت عراق میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہاں ہماری بے بی بسی نظر آرہی ہے۔ مڈل ایسٹ نہ صرف فارن ایکسچینج اور ایمپلائمنٹ ہمارے شہریوں کو فراہم کرتا ہے بلکہ 21ویں صدی کی تبدیلی میں تعلیمی، اقتصادی انڈو عرب اور مڈل ایسٹ کے رشتہ کا ایک بلاک تعاون کے ذریعہ بڑھ سکتا ہے جہاں ہندستان اور اس خطہ کے پائیدار رشتے قائم ہوسکتے ہیں اور امن کو قائم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی ایک خاص آئینہ لگاکر خواہ خارجہ، اقتصادی، سماجی، تعلیمی، پڑوس کے ساتھ تعلقات اور مختلف جغرافیائی خطے کے سلسلے میں ہو ہمیں اپنے ملک کی ترقی اور ملک کو مضبوط کرنے اور انسانیت کی فلاح وبہبود پر مشتمل پالیسی وضع کرنا چاہیے۔
ایک ماہ کا وقت ان کے صدارتی خطبہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے جہاں خطبہ کا آغاز ان جملے کے ساتھ ہوا ہے کہ ہم ہرگز نہ بھولیں کہ لوک سبھا میں ہم عوام کی وجہ سے ہیں اور عوام کی خدمت ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور ہمارا دستور بھی اسی لفظ We the peopleسے شروع ہوتا ہے اور اس نے اپنے دیباچہ میں انصاف، آزادی ، مساوات اور بھائی چارہ کے ساتھ ہی سیکولرازم کو شامل کیا ہے جہاں ان پانچوں ستون کی بنیاد پر یہاں کا ہر شہری ترقی کا خواب دیکھتا ہے، انصاف کے قیام کو زندگی کو مطمح نظر سمجھتا ہے، برابری کو دستور کی روح سمجھتا ہے اور بھائی چارگی کو سماج کے تانے بانے کو مضبوط رکھنے کے لیے حوصلہ پاتا ہے۔ اس ایک مہینہ میں یہ پانچوں ستون کو مضبوط کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے کوئی عملی قدم نظر نہیں آیا بلکہ اس کے برعکس چیزیں نظر آرہی ہیں۔ فطری طور پر اس ملک کا ہر شہری بڑی بانگ سن کر یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ اب ہمارے دروازے پر اچھے دنوں کی دستک سنائی دے گی،اس ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینہ بہت زیادہ نہیں ہے مگر صبح کی کرنیں دن کا پتہ دیتی ہیں۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home