دنگوں اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا کیا کوئی رشتہ ہے؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم

16ویں لوک سبھا انتخابات کو لیکر انتخابی ماحول اس لحاظ سے بالکل الگ ہے کہ اس الیکشن میں روایتی نعرے غائب ہیں کچھ سیاسی پارٹیاں اپنے کاموں کو گنوانے اور سماج کے کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے نیزا نھیں ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے بجائے ماحول کو فرقہ وارانہ خطوط پر استوار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ ایسا ایشو ہے جس کے آگئے دیگر ایشوز ختم ہوجاتے ہیں۔ بات چاہے انتخابی سال میں فرقہ وارانہ تصادم کی ہو یا دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی یا پھر مودی کے ذریعہ مسلمانوں کو AK-47 سے منسوب کرنے کی ہو۔ ان سبھی کوششوں کا محور اور مقصد ایک ہے کہ کس طرح مسلمانوں میں خوف وہراس کی نفسیات کو پیدا کرکے مودی کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ مسلمان خوف وہراس کا شکار ہوکر مودی کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیںیا پھر وہ اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کرنے سے بچیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو ان کے ووٹوں کو منتشر کراکر بے اثر کرادیا جائے یہ سب سے بڑا مقصد ہے۔ جموں میں تقریرکرتے ہوئے بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندرمودی نے تین AK کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایک AK-47 وہ ہے جس کے ذریعہ ملک میں خون وخرابہ کیا جارہا ہے۔ دوسرا AKوزیر دفاع اے کے انٹونی ہیں ،تیسرے AKوہ ہیں جنھوں نے حال ہی میں اپنی ایک پارٹی قائم کی ہے، خون خرابے کے حوالے سے انھوں نے سیدھے طور پر مسلمانوں کا نام نہیں لیا،لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ جس طرح مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے معاملے میں گرفتار کیا جارہا ہے۔ اس ماحول میں ان کا یہ بیان مسلمانوں سے ہی متعلق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت میں اس طرح کے معاملات ٹھہر نہیں پاتے اور وہ باعزت رہا کردئیے جاتے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فاشسٹ پارٹیاں اپنے عزائم کو پورا کرنے اور منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لئے کوئی مثبت طرزعمل اختیار نہیں کرتی ہیں بلکہ سماج میں خوف وہراس کو بڑھانے اور نفرت پھیلانے اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر عمل کرتی ہیں تاکہ سماج انہی خطوط پر تقسیم ہوجائے۔ اس کا اندازہ حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں دئیے گئے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں اس نے اعتراف کیا کہ گذشتہ سال کے مقابلے اس سال فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2012 میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی تعداد 668تھی جو 2013 میں بڑھکر 823ہوگئی۔ یہ صورتحال پورے ملک کی ہے لیکن اگرہم اترپردیش کی بات کریں تو وہاں بھی ان واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 2012 میں یہاں اس طرح کے واقعات 118تھے جو 2013 میں بڑھکر247 تک پہونچ گئے۔ ریاست اترپردیش اور ملک گیر کی سطح پر یہ اضافہ اس سال دیکھنے کو ملا جو الیکشن سال کہلاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اس سال رائے دہندگان کے مزاج کو سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن فاشسٹ تنظیمیں اس کے بر عکس سماجی تانے بانے کو توڑنے کا کام کرتی ہیں۔ راجستھان میں بھی گذشتہ سال اس طرح کے 37 واقعات درج کئے گئے تھے جو کہ 2013 میں بڑھکر 52تک پہونچ گئے۔
دوسری جانب انڈین مجاہدین کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری نے درجہ حرارت میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ اخبارات میں ہر دن کسی کی گرفتاری کی خبر مسلمانوں کو مایوسی اور خوف کی جانب لے جارہی ہے۔ حیدر آباد کے مولانا عبد القوی کی گرفتاری پر وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے کا ایک وفد سے یہ کہنا کہ انھیں اس گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں ہے، سے کانگریس حکومت اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی ہے۔ کیونکہ یہ واقعات اس کے دورِ حکومت میں ہورہے ہیں اور وہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن صورتحال کا جائزہ لینا اس لحاظ سے ضروری ہے کہ مسلم نوجوانوں کے خلاف جس طرح کی مہم چلائی جارہی ہے اس میں بیوروکریسی پوری طرح ملوث ہے، اور تشویش کی بات یہ ہے کہ بیوروکریسی میں آر ایس ایس کی فلاسفی سے متاثر لوگ بڑی تعداد میں پہونچ گئے ہیں اور اس فلاسفی کو وہ عملاً نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس فلاسفی کا مقصد بھی مسلمانوں کو ڈرانا اور دھمکانا ہے۔میڈیا جو خود تحقیقی صحافت اور اصول پسندی کی بات کرتا ہے، اکثر وبیشتر نے اس معیار کو قائم نہیں رکھا اور خود کو ایک سرمایہ دار اور اس کے فائدے کے لیے مودی، بی جے پی اور آرایس ایس کو اس طرح پیش کیا کہ گویا ملک کا مقدر مودی کے آنے سے چمک اٹھے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا فاشسٹ کا دور دورہ شروع ہوگا جس کی جانب کئی سماجی ماہرین اشارہ بھی کرچکے ہیں۔
اس تناظر میں اگر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو دیکھا جائے تو دونوں میں ایک رشتہ نظر آتا ہے، اور وہ رشتہ بڑا گہرا ہے جس کی طرف گذشتہ دنوں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے علی گڑھ کے انتخابی جلسہ میں کہی کہ بی جے پی ملک میں فساد کرارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فسادات کیوں کرائے جاتے ہیں؟ اوراس سے کس طرح فائدہ حاصل کیا جاتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں جب کبھی بھی فسادات ہوئے ہیں خواہ وہ چھوٹے پیمانے کے ہوں یا بڑے پیمانے کے،کبھی بھی آر ایس ایس اور اس کے سربراہوں کی جانب سے ان واقعات پر کسی طرح کی معذرت خواہی یا افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا سوائے 2002کے گجرات قتل عام میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے مودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کے۔ وہ بھی اس لئے کرنا پڑی کہ وہ ملک کے وزیر اعظم تھے اور پوری دنیا میں ان فسادات کو لیکر ملک کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ فسادات کے تعلق سے آر ایس ایس اور اس کے سربراہوں کی خاموشی کو کیا معنی دیا جائے اس کا فیصلہ قارئین خود کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ان کی شہ تو اس میں شامل نہیں ہے۔ فسادات کی جانچ کے لئے قائم مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں نے اس بابت اپنی جو رپورٹ دی ہے، بتایا جاتا ہے اس میں کئی نے تو واضح طور پر آر ایس ایس اور اس کی فکر سے متعلق لوگوں کا نام لیا ہے لیکن یہ رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی اور نہ ہی اس پر عمل ہوا۔ اس کی وجہ تو یہ بتائی گئی کہ برسراقتدار حکومت کی قوت ارادی میں کمی ہے یقیناًیہ اسی وجہ سے ہوا جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیوروکریسی میں شامل اس فکر کے لوگوں کی وجہ سے عملاً یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ فساد کرانے والوں کو نہ کوئی سزا ملی اور نہ ان کی جواب طلبی ہوئی اس کے برعکس ایسے آفیسروں کو جن پر فساد میں جانبدار ہونے کا الزام لگایا گیا انھیں ترقی دیکر ان کا عہدہ بڑھایاگیا۔
ہندوستان جو کہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اور اس حوالے سے ہر پانچ سال بعد انتخابات کا عمل ہوتا ہے تاکہ رائے دہندگان یہ فیصلہ کرسکیں کہ انھیں اس ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم کو محفوظ رکھنا ہے یا پھر اسے فاشسٹ نظریات کے حامل لوگوں کے حوالے کرنا ہے جن کے یہاں اقلیت کوئی نام نہیں ہے اور نہ ہی اقلیتوں کے لئے کسی طرح کے حقوق ہیں۔ مظفر نگر فساد متاثرین سے حق رائے دہندگی کو چھین لینے کا بی جے پی لیڈر حکم چند کا بیان اس کی واضح مثال ہے جس میں انھوں نے صاف صاف کہا کہ مظفر نگر فساد متاثرین کو انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے کا حق چھین لیا جائے اس پر پارٹی اور آر ایس ایس نیز اس کے سربراہوں نے کسی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس کو خلاف قانون بتایا۔ 16ویں لوک سبھا اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ جن سے ہندوستان کا ہر شہری دوچار ہے لیکن اس کا براہ راست اثر سماج کے کمزور طبقات اور اقلیتوں پر زیادہ پڑتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دستور کو بچانے کی ذمہ داری بھی اسی طبقہ پر زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو طاقتور ہوتا ہے اسے قانون کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور وہ قانون کو توڑتا ہے۔ اس لئے اقلیتوں پر اس کی حفاظت کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے انھوں نے ہمیشہ ہی فراست ایمانی کا ثبوت دیا ہے لیکن بسااوقات ذاتی منفعت کے چلتے کچھ لوگ مسلمانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بہکاوے کے لئے ہمیشہ خوشنما پیکنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس کو دیکھ کر آدمی دھوکہ کھاجاتا ہے اور تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے اندر کہا تو کچھ گیا تھا اور نکلا کچھ، اس لئے خوشنما نعروں اور وعدوں کو زمینی سطح پر جانچنے اور پرکھنے کے ساتھ کسی طرح کا دھوکہ نہ کھانے کی ضرورت ہے۔ یہ موقع ایک ایک لمبے عرصہ کے بعد آتا ہے لیکن اگر ہم نے اپنی ذہانت اور حکمت عملی کا ثبوت نہیں دیا تو پھر مایوسی اور ماتم ہمارا مقدر ہوگا۔ جو کہ زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔ ہم نے ایمانداری اور خلوص نیت کے ساتھ صورتحال کو آپ کے سامنے رکھدی ہے۔ اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ کیا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
)




Back   Home