مودی حکومت خوش کن نعروں سے عملی اقدام تک
ڈاکٹر محمد منظور عالم
16ویں لوک سبھا کے الیکشن کا رزلٹ آگیا اور نریندر مودی جو دوران الیکشن وزیر اعظم بن چکے تھے نے دستوری طور پر دستور کی حفاظت اور رازداری کی قسم کے ساتھ اپنی پسند کی کابینہ تشکیل کرکے حکومت قائم کرلی۔ مختلف وزراء کو قلمدان بھی تقسیم کر دےئے گئے ساتھ ہی انھیں یہ سبق بھی دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے سکریٹری بھی نہیں رکھ سکتے۔ اس کے لیے انھیں پی ایم او سے کلیئرنس لینا ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزراء کا انتخاب وزیر اعظم کا اختیار ہے لیکن یہ اختیار انھوں نے از خود حاصل کرلیا ہے کہ کوئی وزیر اپنے اعتماد کے کسی شخص کو اپنے سکریٹری کا عہدہ نہیں دے سکتا۔ اس کی تاویل چاہے کچھ بھی ہو خواہ وہ ان کے مزاج کی عکاسی ہو، کم وزراء سے زیادہ کام لینے کی وجہ ہو، وزیر اعظم کے نزدیک تمام چیزوں میں شفافیت ہو، جواب دہی کا پہلو ہو، اس کے باوجود یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ یہ ان کا اپنے وزراء کے تئیں عدم اعتماد کااظہار ہے۔ ممکن ہے یہ وزراء اس کو بُرا نہ مانیں اور شفافیت کے زمرے میں رکھ کر اپنے کام کو انجام دیں مگر اس کا بھی احتمال ہے کہ وزراء اپنے خیالات کا اظہار پورے دل ودماغ کے ساتھ نہ کریں کیونکہ یہ اندیشہ بہرحال برقرار رہے گاکہ یہ وزیر اعظم تک کے خیال کی عکاسی ہوسکتی ہے۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ جب کبھی الیکشن کا رزلٹ توقع کے خلاف یا توقع کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور تجزیہ کیا جاتا ہے اور طویل المدتی مرحلے میں ان تمام چیزوں کی گہرائی سے تحقیق کی جاتی ہے جس مرحلے کے تجزیہ سے آج ملک گزر رہا ہے۔ صحافی اپنے قلم کی نوک سے جائزہ پیش کررہے ہیں۔ مختلف کمیونٹی کے لیڈران، مصنف، صحافی، سماجی کارکن، مرد وخواتین اپنے خیالات کا اظہار مختلف انداز سے کررہے ہیں۔ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے جذبات، خیالات اور تجزیہ کے ساتھ مختلف گوشوں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ ہر تحریر کے اندر اپنے اپنے تجزیہ کے نقطۂ نگاہ سے کچھ اہم نکات ضرور ہیں جس سے آگے کی رہنمائی میں، پلاننگ میں اور حکمت عملی وضع کرنے میں مدد مل سکتی ہے، کچھ لوگ وہ ہیں جو دوران الیکشن اپنی اپنی بساط کے مطابق آرایس ایس اور بی جے پی بالخصوص نریندر مودی سے جڑ کر کام کررہے تھے اور میڈیا خاص طور سے نیشنل میڈیا ایسے لوگوں کو بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے بہی خواہوں کی شکل میں پیش کررہا تھا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے تجارتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہر سیاسی پارٹی سے وابستہ رہتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی سے زیادہ اچھے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو سیکولر پارٹیوں سے گہرے تعلقات رکھ رہے تھے اور ان کے پروگراموں کو بڑھانے میں مکمل طور پر کام کررہے تھے اور کچھ وہ تھے جہاں سے جو بھی اچھے آفر آئے اس کی روشنی میں اپنے کام کا نقشہ بنایا۔ بہرحال 16مئی کو ایک نتیجہ آیا اور اس نتیجہ کی روشنی میں بھانت بھانت کی آوازوں کے ساتھ اپنی سوچ کی عکاسی دوسروں پر ضرب لگاتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش شروع کی۔ منشاء اس کا کچھ بھی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کا مزاج خواہ صحافی ہو، دانشور ہو، رہنما ہو، حتی کہ طالب علم ہو، میں ایک ہوڑ لگ چکی ہے۔ دوسری طرف ایک تذبذب کی کیفیت بنی ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت سے مسلمانوں کے تعلقات کیسے ہوں، مسلمان اپنے مسائل کوکیسے پیش کریں، کن ایشوز کو فوقیت دے کر بات آگے بڑھائی جائے اور آپس کا تال میل کیسے پیدا ہو، کہیں پر یہ بحث ہے کہ اعلان ٹیکٹکل ووٹنگ کے نتیجہ میں ایسا رزلٹ آیا ہے۔ یہ وقت مناسب نہیں کہ اس کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جائے تاہم یہ بات کہنا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ اس بار کے الیکشن میں جناب احمد بخاری نے صرف کانگریس صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کے لیے کوئی دورہ نہیں کیا۔ اعظم خاں نے کارگل کی جنگ میں مسلمانوں کی قربانیوں کو پیش کیا اور اخترالایمان نے مولانا اسرار الحق کے حق میں اپنی امیدواری کو واپس لینے کا اعلان کیا، اسے پورے ملک کے میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ یہ مسلمانوں کی فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم تھی لیکن کسی ایک میڈیا نے سنگھل، توگڑیا اور پر مود متالک کے بیانات کو فرقہ وارانہ قرار نہیں دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سارے لوگ سیکولرازم کے بہترین نمائندے بن کر ملک کے دھارے کے نمونے ہیں۔ صرف اتنی سی تلقین کر ناباقی تھی اور مسلمان سب کے سب یہ اعلان کرتے کہ ایسی پارٹی کو حمایت دی جائے، راجندر سچر کے الفاظ میں آزادی کی جدو جہد میں جس کا کوئی رول نہیں تھا ان کو سر پر بیٹھایا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ آر ایس ایس اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوئی اور فرقہ وارانہ دھارے میں ملک کے ہندو نوجوانوں کو بہالے گئی اور دیگر ہندوؤں کو سیکولرازم کے نام پر تقسیم کرنے میں کامیاب رہی۔ اس لیے اس کی ضرورت نہیں کہ خوشی کی ڈفلی بجائیں یا ماتم کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حقیقت کو سمجھنے کے بعد حکومت قائم ہونے اور اس کے کل پُرزے جو عملی طور پر میدان میں آچکے ہیں ان کے طرز عمل، طریقۂ کار اور انکے فلسفہ کے تحت کام ہورہا ہے یا دستور کے خلاف ہورہا ہے، اس پر نہ صرف نگاہ رکھی جائے بلکہ پروایکشن (Pro Action)پلان تیار کریں اور ان کی چھوڑی ہوئی پھلجڑیوں دفعہ 370، یکساں سول کوڈ اور رام مندر اور اس طرح کی دیگر چیزوں پر اپنے رد عمل کے ذریعہ خود کو مشتعل ہونے سے بچائیں اور اپنے رد عمل کو پیش کرنے میں نہ جلد بازی کی ضرورت ہے نہ سراسیمگی کی اور نہ میدان عمل سے فرار ہونے کی۔ جو عملی پہلو ہیں ذرا غور سے دیکھتے چلیں کہ ’ترقی سب کی، منھ بھرائی کسی کی نہیں‘ کے عملی پہلو پر موجودہ حکومت کیا پیش کرنے جارہی ہیے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں، اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، سماجی سہولتوں کو حاصل کرنے میں پیچھے ہیں، اسکول ان کی آبادی کے نقطۂ نگاہ سے کم پائے جاتے ہیں، انھیں خود کفیل کرنے کے ادارے بہت کم پائے جاتے ہیں۔ جتنی طرح کی اسکیمیں ان لوگوں کے لیے بنائی گئی ہیں اس میں ان کو شیئر نہیں مل رہا ہے۔ ترقی کی جتنی بھی راہیں ہیں ان کے راستے میں رکاوٹیں زیادہ ہیں۔ سرکار کے کل پُرزے بالخصوص بیوروکریٹ اور دیگر عملے ان کے حقوق نہ دینے میں آگے ہیں اور سیکورٹی کے نام سے جیلوں میں ان کی تعداد بڑھانے میں آگے ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے قائدین، مسلم سوچ وفکر رکھنے والے افراد اور ایسے مسلم لیڈر جو این ڈی اے کے پارٹ ہیں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ان ایشوز کو کیسے اور کس طرح سامنے لائیں اور کس طرح اسے عملی شکل دیں تاکہ مودی جی کا یہ خوبصورت نعرہ ملک کی خوبصورتی میں اضافہ کرے اور جو تہذیبی گلدستہ ہے اس کو مزید طاقتور بنایا جاسکے۔ انکا یہ نعرہ بھی بہت اہم ہے ’مختصر گورنمنٹ زیادہ گورننس‘ جس میں انھوں نے کچھ عملی قدم بھی اٹھائے ہیں جو ہندستان کے سبھی شہریوں کے لیے مفید ہے مگر اس کے ساتھ گڈ گورننس کے لیے ضروری ہے کہ ایک قوم کے معصوم اور نوجوان جو جیل کی سلا خوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کے سبب مسلمان نام ہونے کی وجہ سے بند ہیں لازم ہے کہ فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ ان تمام لوگوں کے فیصلے سامنے لائے جائیں اور یہ غلط نہیں ہوگا کہ میں یہ کہوں کہ خود ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اکشردھام معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے قدم اٹھائیں کہ ہمارے ملک میں مشترکہ تہذیب جس میں بھائی چارگی، محبت وانصاف اور برابری کا دور دورہ آسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب گڈ گورننس قائم ہو، مداخلت نہ ہو، انصاف کے راستے ہموار ہوں، اس کی راہ میں دشواریاں کھڑی نہ کی جائیں، سارے شہری برابر ہوں، اونچ نیچ، چھوٹی ذات برادری مذہب کی بنیاد نہ بنے تو یہ گڈ گورننس کی مثال بن سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بہت سارے وزارء جن پر بہت اہم چار جز ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں کابینہ میں نہیں لینا چاہیے لیکن اگر انھوں نے لے ہی لیا ہے تو قانون کو چھوٹا نہ ہونے دیں چاہے قانون کا ہاتھ ان تک کیوں نہ پہونچ جائے، اور اس کی نظیر قائم کریں۔
کسی بھی ملک کی ترقی خواہ اقتصادی ہو یا تعلیمی، سماجی ہو یا تہذیبی، اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام ہی اکائیوں کو خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، چھوٹی ذات ہو یا بڑی ذات، لسانی اکائی ہو یا تہذیبی اکائی، ان کے کمزور طبقات کو آگے بڑھانے کی تدبیر اور سب کو یکساں مواقع فراہم کرنے کی کوششیں ہوں، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو شاید مودی جی کو ان الفاظ میں یاد رکھا جائے گا کہ خوش کن نعرہ دینے کے ماہر اچھے الفاظ کو ایک جارگن کے طور پر میڈیا کے سہارے کا رپوریٹ کے بل بوتے اپنی باتوں کو پیش کرنے کی بدرجہ اتم صلاحیت ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کتنے روزگار پیدا ہوئے، یا کتنے روزگار دور ہوئے، کتنے وعدے کیے گئے تھے اور وہ کس حد تک پورے ہوئے اور پھر اس کارکردگی کی بنیاد پر انھیں یاد رکھا جائے گا۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home