فسطائیت اور دلتوں کے خلاف مظالم
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سماج کے کمزور طبقات بالعموم اور مسلمان بالخصوص تو نشانے پر تھے ہی لیکن اب دلت بھی نشانہ پر آگئے ہیں۔ انھیں بھی ظلم وستم کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ اس بات کی تصدیق خود مرکزی حکومت کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے۔ وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی ایک کمیٹی ’’مانیٹرنگ دی ایمپلیمنٹیشن آف کانسٹی ٹیوشنل سیف گارڈس فار شیڈول کاسٹ‘‘ کے مطابق گجرات اور چھتیس گڑھ میں دلتوں پر مظالم کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ 2013میں گجرات اور چھتیس گڑھ میں بالترتیب 1190 اور 240ایسے واقعات سامنے آئے تھے جبکہ گزشتہ سال گجرات اور چھتیس گڑھ میں بالترتیب 163.30فیصد ( 6655معاملے) اور 91.90فیصد (3008معاملے) اضافہ ہوا ہے۔دلتوں کے خلاف 163.30فیصد اور 91.90 فیصد کا یہ اضافہ بی جے پی کی ریاستوں میں ہوا ہے۔ اچانک ان واقعات میں اضافہ کیوں ہوا، اخباری رپورٹ میں اس کا کوئی جائزہ دیکھنے کو نہیں ملا ہے لیکن اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ برہمنی نظام میں جس سماج کے کمزور طبقات بشمول آدی واسی اور مسلمانوں ودیگر اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے وہاں دلتوں کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ منواسمرتی کے مطابق اگر کسی دلت کے کانوں میں گیتا کے اشلوک پڑجائیں تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے۔ منواسمرتی کے اس تصور کے بعد دلتوں پر مظالم میں اچانک اضافہ کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے بعد سنگھ پریوار سے وابستہ افراد اور تنظیموں بشمول بی جے پی کا یہ دعویٰ کہ وہ دلتوں کے ساتھ ہیں، بی جے پی صدر امت شاہ کے ذریعہ دلت کے گھر کھانا کھانا اور کنبھ میلہ میں دلتوں کے ساتھ اشنان کرنے، وزیر اعظم نریندرمودی کے ذریعہ دلتوں کو اپنے ساتھ کرنے جیسے اقدامات سے صاف ہے کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی دلتوں پر ہورہے ظلم وستم پر خاموش رہ کر صرف انھیں ووٹوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔
دلتوں کو نہ صرف بربریت کے ساتھ مارا پیٹا جارہا ہے، جانوروں کی کھال کے نام پر دلتوں کی کھال اتاری جارہی ہے، انھیں پیڑ پر لٹکایا جارہا ہے، بے رحمی اور بے دردی سے ان پر تشدد کیا جارہا ہے، گویا وہ انسان نہ ہوں۔ اسی کے ساتھ ساتھ دلتوں کو بے عزت کرنے اور انھیں ذہنی طور پر پسماندہ بنانے کی مہم بھی جاری ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی کے لیے یو پی بی جے پی نائب صدر دیاشنکر نے جس طرح نازیبا کلمات استعمال کیے اس نے سنگھ اور بی جے پی کی پول کھول دی ہے کہ یہ لوگ کس طرح کمزوروں، غریبوں، دلتوں، اقلیتوں اور آدی واسیوں کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ الفاظ ایسے ہیں جنھیں ایک عام شہری لینا بھی گوارہ نہیں کرتا چنانچہ ہم بھی یہاں انھیں دہرانے سے پرہیز کررہے ہیں۔ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسی سال اپریل میں اترپردیش کی بی جے پی مہیلا مورچہ کی ریاستی انچارج مدھو مشرا نے کہا کہ ’آج تمہارے سر پر بیٹھ کر آئین کے سہارے جو لوگ راج کررہے ہیں، یاد کرو وہ کبھی تمہارے جوتے صاف کیا کرتے تھے۔‘ اس طرح انھوں نے مبینہ طور پر دلتوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی بات بھی کہی تھی۔ مدھو مشرا کو اس تبصرہ کے بعد بی جے پی سے چھ سال کے لیے نکال دیا گیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے رکن اسمبلی روندر چوہان نے تو دلتوں کا موازنہ سوروں سے کردیا تھا۔ اس معاملے میں حکومت کے وزراء بھی پیچھے نہیں ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت وی کے سنگھ نے دلتوں کا موازنہ کتوں سے کیا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں فرید آباد میں دو دلت بچوں کے قتل کے معاملہ میں موصوف نے مرکز کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اگر کوئی کسی کتے پر پتھر پھینک دے تو آپ اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔‘‘ دلتوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر برائے فروغ وسائل انسانی اسمرتی ایرانی نے پارلیمنٹ میں طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری ذات بتاؤ‘۔ تب انھوں نے حیدر آباد یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویمولا کی موت کے بعد ان کے دلت ہونے یا نہ ہونے پر ہی سوال کھڑے کیے تھے جس کے بعد روہت کی ماں کو صفائی دینی پڑی کہ وہ دلت ہی ہیں۔ بہار الیکشن سے قبل آر ایس ایس سرسنگھ سنچالک موہن بھاگوت نے دلت ریزرویشن پر نظر ثانی اور اسے ختم کرنے کی بات کرکے اپنے موقف کو واضح کردیا تھا۔
حالیہ معاملہ گجرات کا ہے جہاں چار دلتوں کو ننگا کرکے ہاتھ پیر باندھ کر بری طرح مارا پیٹا گیا۔ یہ وہ دلت ہیں جومردہ جانوروں کو ڈھوتے ہیں لیکن گؤ رکشا سمیتی کے لوگوں نے انھیں بھی نہیں بخشا، اس سے قبل بھی کئی مقامات پر دلتوں کی پٹائی کی گئی اس ضمن میں فریدآباد کے دو مسلم نوجوانوں کو بھی مارا پیٹا گیا اور انھیں گائے کا گوبر زبردستی کھلایا گیا جس کا فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا لیکن حکومت کی جانب سے ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایک نئے نظام انصاف کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔ کیا برہمنی نظام میں ہر شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ جب اور جہاں چاہے سماج کے کمزوروں، دلتوں، اقلیتوں اور آدی واسیوں کو سرعام سزا دے۔ ایسی صورت میں قانون وانصاف کیسے بحال رہ سکتا ہے کیا تب عدالتوں کی ضرورت باقی رہے گی یا پھر اس ظلم وزیادتی کے پیچھے منشا یہ ہے کہ سماج کے یہ طبقات عدالتوں سے رجوع کرنے کی بات ہی نہ سوچیں کیونکہ انھیں اکثریت کے رحم وکرم پر ہی زندگی گزارنا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سماج کے کمزور طبقات کے حوالے سے فسطائیت کیا انسانوں کو برابری کا حق دے گی؟ یا پھر سماجی اونچ نیچ کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کرے گی۔ ایک طرف 21ویں صدی میں ترقی کی انتہائی منزلیں طے کرلینے کا دعویٰ، دور تک مارکرنے والی میزائلوں کی تیاری، نت نئے ہتھیاروں اور راڈاروں کی تیاری تاکہ دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے کیا اس کے بعد بھی محض پیدائش کی بنیاد پر بھید بھاؤ ملک کو ترقی سے ہم آہنگ کرسکتا ہے۔ کیا یہ نظریات سائنسی ایجادات سے میل کھاتے ہیں یا پھر ہمیں اس دو رمیں لے جاتے ہیں جب تہذیب وثقافت کا ارتقا نہیں ہو اتھا اور طاقتور کمزور پر ظلم کرنا، ان سے بیگار وصولنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔ بابائے دستور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی 125ویں یوم پیدائش پر آر ایس ایس اور بی جے پی نے انھیں اپنے پالے میں کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ظاہری طور پر بھی وہ اسے قبول نہ کرسکی اور اندرگاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس کے نو منتخب ڈائریکٹر رام بہادر رائے جو کہ ایک ہندی میگزین کے ایڈیٹر بھی ہیں نے ہندی میگزین ’آؤٹ لک‘ میں ڈاکٹر امبیڈ کر کی خدمات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اصل کام تو ان کے سکریٹری نے کیا ہے انھوں نے تو صرف اسے ترتیب دیا ہے گوکہ بعد میں انھوں نے انٹرویو کو تو چیلنج کیا کہ وہ کوئی باضابطہ انٹرویو نہیں تھا بلکہ آپسی گفتگو تھی جسے انٹرویو بناکر پیش کیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر انھوں نے امبیڈکر کے حوالے سے اپنے موقف پر نہ تو کسی طرح کی نظرثانی کی اور نہ ہی افسوس کا اظہار کیا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو دلتوں پر مظالم ہورہے ہیں تو دوسری طرف اسی حکومت میں شامل دلت نمائندے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لڑائی سماج کے ان طبقات کو مل کر لڑنا ہوگی اور اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ برہمن ازم میں منواسمرتی کی حکمرانی ہوگی جس میں سماج کے کمزور طبقات، دلتوں، اقلیتوں،مسلمانوں اور دلتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی گنجائش صرف ہندستانی آئین میں ہے جس کے تحفظ پر ہماری بقا کا انحصار ہے۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home