جدید بہار کے معماروں کا امام ۔۔۔۔۔۔ سر سید علی امام
ڈاکٹر سید فضل رب
اعزازی ڈائرکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز ( پٹنہ چیپٹر)
Mob. 9334274494, e-mail: iospatna@gmail.com

بہار کے وجود کا بھر پور احساس دلانے کے لئے ہر سال ’’ بہار دیوس‘‘ بڑے شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن سارے فسانے میں ان لوگوں کا تذکرہ نہیں ہوتا جن کی کاوشوں کا خون بہار کی شناخت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے ۔ ہندوتان کے نقشہ میں بہار کو ایک علیحدہ ریاست کی شکل عطا کرانے والوں کی پہلی صف میں جن ہم شخصیتوں نے کلیدی رول انجام دیا ان میں سر علی امام ، سچیدانند سنہا ، سر محمد فخر الدین ، مہیش نارائن وغیرہ کے اسمائے گرامی ناقابل فراموش ہیں لیکن گردش دوراں کو کیا کہئے کہ بہار دیوس جسے موقعوں پر ایسے لوگوں کو فراموش کردیا جانا اب حکومتوں کی عام روش بنتی جارہی ہے لیکن اس گردش دوراں کے ذمہ دار اس ریاست کے دانشور بھی ہیں جو اس روش کے حصہ دار بنتے جارہے ہیں حالانکہ حکومتوں سے کہیں زیادہ ذمہ داری ان دانشورو ں کی ہے کہ وہ نئی نسلوں کو اپنے ماضی سے باخبر رکھیں تاکہ ماضی ، حال اور مستقبل کا رشتہ باہم مربوط رہے اور تاریخ کا عمل بھی متوازن رہے،
بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک بہار محض بنگال کا ایک حصہ تھا لہذا بہاریوں کو اپنی اکثر و بیشترضرورتوں کے لئے کلکتہ کا ہی رخ کرنا پڑتا تھا ، چنانچہ ۱۹۰۶ میں تعلیم یافتہ بہاریوں نے ایک ’’ بہاری کلب ‘‘ قائم کیا تاکہ کلکتہ آنے والے بہاریوں کو کسی بھی طرح کے مشکلات کا سامنا ہو تو انہیں ہر طرح کی مدد کی جائے، اسی سال اس کلب کا ایک سالانہ جلسہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت جسٹس شرف الدین نے کی تھی جو بذات خود پہلے بہاری تھے جن کا تقرر کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر ہوا تھا چنانچہ ’’ بہار ی کلب ‘‘ کے پلیٹ فارم سے بہاری اپنے حقوق کے لئے منظم ہونے لگے اور بہار کو بنگال سے الگ کرنے والوں کی تحریک رفتہ رفتہ زور پکڑنے لگی، چنانچہ جب پٹنہ میں بہار پرونیشل کانفرنس کا پہلا اجلاس اپریل ۱۹۰۸ میں سر علی امام کی صدارت میں منعقد ہوا تو بہار کو بنگال سے الگ کرنے کی ایک اہم ترین تجویز محمد فخر الدین نے پیش کی جسے متفقہ طور پر قبول کیا گیا، اسی طرح وہ دن بھی آیا جب سر علی امام کو وائسرائے کی ایکزیکٹیو کاؤنسل کا ممبر بنایا گیا جس کی حیثیت اس وقت حکومت ہند میں وزیر برائے قانون کی تھی ، ان کی ہی تجویز پر حکومت نے بہار کو بنگال سے الگ کرنے کا فیصلہ لیا اور اس پر اپنی رضا مندی کی مہر لگادی ،
سرعلی امام کی غیر معمولی صلاحیتوں اور ان کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے ممتاز قانون داں ، سچیدانند سنہا نے اپنی مشہور کتاب Some Eminent Bihar Conteproaries میں لکھا ہے کہ وائسرائے کی ایزکیوٹیو کاؤنسل کے ممبر کی حیثیت سے انہوں نے جن اہم ترین ذمہ داریوں کو انجام دیا ان میں دو ایسی تھیں جس نے ملک کے نقشے میں ہی تبدیلی لادی، اس میں اول الذکر کا تعلق بہار کو بنگال سے الگ کرنا اور دوسرا ملک کے دار الخلافہ کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنا تھا ، ان کی دونوں ہی تجاویز کو لارڈ ہارڈنگ نے اپنے ڈسپیچ کے ذریعہ حکومت برطانیہ کو بھیجا جسے قبول کر لیا گیا جس کا اعلان دسمبر ۱۹۱۱ ء کے دہلی دربار کے ایک تاریخی جلسے میں شہنشاہ جارج پانچویں (George Vth) کے ذریعہ کیا گیا ، جدید ہندوستان کی تاریخ میں ان دونوں اقدامات سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کا اعتراف ہمیشہ کیا جاتا رہے گا ، آج بھی یہ دونوں حقیقتیں ہماری نگاہوں کے سامنے ہنوز موجود ہیں اور ہمیں سر علی امام کی غیر معمولی قانون دانی کے اعتراف کے لئے مجبور کر رہی ہیں لیکن ہماری حکومتیں خواہ وہ بہار کی ہو یا دہلی میں واقع مرکزی دونوں ہی سرعلی امام کو فراموش کرنے کی ’تاریخ ساز خاموشی‘ برقرار رکھنے پر ہنوز قائم ہیں ۔ آزاد ہندوستان میں ایسی شخصیتوں کو جس طرح خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہئے تھا وہ روایت اب شاید رفتہ رفتہ شجر ممنوعہ ہوتی جارہی ہے ۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سر علی امام اپنے عہد کے ایک ممتاز ترین قانون داں تھے ، قانونی پیشہ سے انہیں والہانہ لگاؤ تھا جو شاید انہیں خاندانی وراثت میں ملا تھا لیکن بقول پروفیسر اقبال حسین ۔۔۔ انہوں نے اپنی جادوبیانی ، قانون فہمی اور قانون دانی ، سے اتنی شہرت حاصل کی کہ ہندوستان کے ہر صوبے میں بڑے سے بڑے مقدموں میں بیرسٹر مقرر کئے جاتے اور ان میں وہ کامیاب ہوتے ، ان کی کامیابی کا شرح اتنا زیادہ تھا کہ لوگ انہیں Case Winner کے
(۲)
نام سے منسوب کرتے تھے، جس مقدمے کو وہ قبول کرتے تو آدھی جیت، سمجھ کر لوگ اپنے آپ کو خوش نصیب محسوس کرتے تھے ، انہیں کئی جلیل القدر عہدوں پر فائز ہونے کا موقع ملا ، ۱۹۰۹ میں حکومت ہند کے Standing Council کے ممبر بنائے گئے ۱۹۱۰ ء میں وہ حکومت ہند کے Law Member بنے اوراس جلیل القدر عہدے پر ۵ سال تک فائز رہے ، ڈاکٹر سچیدا نند سنہا نے سر علی امام کی کارگزاریوں کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی بیس سالہ پریکٹس کے دوران بہار میں کوئی بھی اہم مجرمانہ کیس ایسا نہیں تھا جس میں وہ Accused کی طرف سے نہ لڑا ہو اور اس میں کامیابی حاصل نہ کی ہو ، ان کی شہرت اور مقبولیت کے پیش نظر ریاست حیدرآباد کے نظام نے انہیں اپنی ریاست میں ۵ سال کی مدت کے لئے وزیر اعظم کا تقرر نامہ پیش کیا جسے انہوں نے قبول کرلی لیکن وہ ریاست میں اپنے ۵ سال کی مدت گزارنے سے پہلے ہی سبکدوشی اختیار کرلی، اسی اثناء میں برطانیہ حکومت نے انہیں League of Nations جس کا قیام اس وقت عمل میں آیا تھا اس کی پہلی میٹنگ میں حصہ لینے کے لئے وائسرائے کے نمائندے کی حیثیت سے انہیں نامزد کیا گیا اورانہوں نے لیگ آف نیشنز میں ملک کی نمائندگی کی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی منفرد شخصیت کی چھاپ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
سر علی امام اس ملک کے ان چند لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے جو فکری اعتبار سے بے حد لبرل ، دوراندیش، منطقی ، جرائت مند ، صاف گو ، خوداراور منصفیانہ خصوصیتوں کے مالک تھے ، علامہ اقبال کو سر علی امام سے بڑی عقیدت مندی تھی ، انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ، اسرار خودی ، کو انیس اشعار پر محیط ایک قصیدہ لکھ کر سر علی امام کے نام سے منسوب کیا تھا جو اسرر خودی کے دو ایڈیشنوں تک یہ قصیدہ موجود رہا لیکن بعد کے اڈیشنوں میں اسے شامل نہیں کیا گیا ، بہر حال علامہ اقبال کو سر علی امام سے بے حد لگاؤ تھا وہ انہیں نگہ دار حقوق امت خیر البشر ، کہہ کر خطاب کرتے تھے جس سے سر علی امام کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
سر علی امام کی شخصیت کئی اعتبار سے بالکل منفرد اور تہہ دار تھی ، انہوں نے بہار کو جہاں ایک الگ پہچان عطا کی وہاں انہوں نے اس کی سماجی ، سیاسی ، تہذیبی و ثقافتی زندگی کو ان قدروں سے مالا مال کیا جسے گنگا جمنی قدروں سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں نہ صرف سیکولر روایات کی آمیزش تھی بلکہ حب الوطنی کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھر ہوا تھا ، دراصل طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ مختلف متحرک و فعال شخصیتوں سے وابسطہ رہے ، جب وہ طالب علمی کے دور میں انگلینڈ میں تھے تو ۱۸۸۰ میں نیشنل کانگریس کا ایک Delegation برطانیہ گیا تھا جس میں سر گنیش نارائن چنداوارکر، سلیم راما سوامی ، مڈ الیئر اور سرسریندر ناتھ بنرجی وغیرہ شامل تھے ، علی امام نے تمام نمائندوں کو ہر ممکنہ طور پر اپنی خدمات سے متاثر کیا ، اپنی ان ہی خصوصتوں کی بنا پر بعد کے دنوں میں بھی وہ سیاسی ، سماجی و ملی خدمات کے میدان میں بے حد فعال و متحرک رہے۔
سر علی امام کے فکر کا کینوس کافی وسیع تھا ، ان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کی بنا پر مسلمانوں کا ایک طبقہ جو مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہا تھا انہیں متفقہ طور پر اپنا صدر منتخب کر لیا ، دراصل اسوقت مسلم لیگ کا چہرہ وہ نہ تھا جس کے لئے آج یاد کیا جاتا ہے ، بیسویں صدری کے اوائل میں کئی ایسے لوگ تھے جو بیگ وقت کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے وابسطہ تھے ، لیکن رفتہ رفتہ علی امام Composite Nationalism کے علم برادر ہوتے گئے ۱۹۳۱ ء میں جب لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم نیشنلسٹ کانفرنس کا انعقاد ہوا تو انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں جداگانہ طریقہ انتخاب (Separate Electorate) کے تصور کو ملک کی سالمیت کے بالکل خلاف قرار دیا، اس کانفرنس میں بہار کی کئی اہم شخصیتیں مثلا ڈاکٹر سید محمود، پروفیسر عبد الباری ، مولوی اسمعیل شاہد ، ڈاکٹر زین الآبدین وغیرہ موجود تھیں ۔ سر علی امام نے نہات وضاحت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔
" Separate electorate cannotes the negation of Nationalism ... If you errect an ironwall between commuynity and community in their politics, you destroy the social fabric and day-to-day life will become insupportable, if you insist on building political barriers. Nationalism can never evolve from divisions and dissensions "
(۳)
دراصل وہ ہندور اور مسلمان کے درمیان کسی بھی تفریق کو نیشنلزم کے خلاف تصور کرتے تھے گرچہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جس میں سید امیر علی بھی شامل تھے ان کی مخالفت کر رہا تھا ، ان دنوں دو قومی نظریہ کا سورج آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا تھا دونوں ہی فرقوں کے درمیان اپنے اپنے حقوق کے لئے صف بندیاں شروع ہونے لگی تھیں لیکن علی امام کی نیشنلسٹ سوچ ہندو مسلمان کے درمیان کسی بھی ’ مراعاتی تفریق ‘ سے آزاد ہو کر ملک کی سا لمیت ، اتحاد اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینا چاہتی تھی لیکن ان کی دور اندیشی، خوداری اور کمپوزٹ کلچر کا خواب وقت کے ہاتھوں مجروح ہوتا گیا ،
سر علی امام دراصل ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کے افراد ملک کے اعلی ترین منصوبوں پر فائز ہوئے اور اپنے کارناموں سے ملک کے وقار کو بلندیوں تک لے جانے کی کوشش کی چنانچہ سر علی امام نے بھی ان ہی خطوط پر چل کر ملک کے ایک اعلی ترین منصب پر فائز ہوئے اور نہ صرف بہار کو ایک منفرد پہچان عطا کی بلکہ ہندوستان کو اپنی ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں بھی اپنے گراں قدر کارناموں سے مالا مال کیا ، ان کی پیدائش پٹنہ ( بہار) سے ۱۵ کیلو میٹر دور واقع ایک گاؤں ’ نیوڑہ‘ میں ۱۱ فروری ۱۸۶۹ء میں ہوئی تھی، جو داناپور ریلوے اسٹیشن سے بہت ہی قریب ہے ، ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا جو مغل حکومت کے قیام سے پہلے ہی ہندوستان آکر بس گیا تھا ، ان کے جد امجد میں سے ایک فرد جن کا نام ملا سعد تھا وہ شہنشاہ اورنگ زیب کے استاد تھے ، ملا سعد کے بیٹے نواب سید خاں مغل سلطنت میں وزیر کے عہدے پر مامور ہوئے تھے ۔ ان کے آبا و اجداد میں نواب میر عسکری کی شخصیت بہت ہی اہم تسلیم کی جاتی تھی کیونکہ وہ لارڈ کلایو (Lord Clive) کے عہد میں بنگال کے نواب کی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے، اسی طرح کئی اور اہم شخصیتیں ان کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں مثلا خان بہادر سید امداد علی سر علی امام کے کے پر دادا تھے ۔ وہ بھی اپنے زمانہ میں منصف کے عہدے پر مامور ہوئے تھے اور پٹنہ سے Subordinate Judge ہوکر ریٹائر ہوئے تھے ان کے ہی صاحبزادے خان بہادر شمس العلماء سید وحید الدین وہ پہلے ہندوستانی تھے جو ۱۸۵۴ء سے ۱۸۵۸ء کے درمیان ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بنے اور اس کے بعد وہ شاہ آباد ضلع کے سیشن جج مقرر ہوئے ، سر علی امام کے والد بذات خود اپنے عہد کے ایک ممتاز شاعر و ادیب تھے ، بقول پروفیسر اقبال حسین و نواب شمس العلماء سید امداد امام اثرّ کی ذات میں ایسی جامعیت موجود تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی تھی ، آپ کو فن طب ، شعر و سخن ادیب و تنقید نگاری میں ایک خاص مقام حاصل تھا ، عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی بھی جانتے تھے ، کچھ عرصہ تک پٹنہ کالج میں فارسی ادب کے پروفیسر رہے مگر انگریز پرنسپل سے کچھ اختلافات کے بنا پر ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی، وہ اردو ادب کے ایک بڑے نقاد تسلیم کئے جاتے تھے دو جلدوں میں شائع ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ، کاشف الحقائق سے ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے ادب کے علاوہ علوم و فنون کے دیگر میدانوں میں بھی اپنے جوہر دکھائے ، انہوں نے سائنسی ایگریکلچرل اور فلسفہ جیسے موضوعات پر مضامین لکھے، ان کی مشہور فلسفیانہ تصنیف Treatise مراۃ الاحکماء Mirat-ul-Hukamaکا Swedish زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا جو کافی مقبول ہوا جس کی بنا سؤڈن کے بادشاہ اوسکر (King Oscar) نے انہیں ایک تعریفی خط بھی تحریر کیا تھا ، سید علی امام کی پھوپھی رشیدۃ النساء اردو کی پہلی ناول نگار تسلیم کی جاتی ہیں ، ان کا ناول اصلاح النساء ۱۸۹۴ء میں پہلی بار پٹنہ سے شائع ہوا تھا ، سید علی امام کے ماموں جسٹس شرف الدین بھی اپنے وقت کے ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے ، وہ پہلے بہاری تھے جو کلکتہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ، بہار کو بنگال سے الگ کرنے کی مہم میں بھی انہوں نے ایک اہم رول انجام دیا ، اس کے علاوہ بہار میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے بھی وہ بے حد سرگرم تھے ، اسی طرح علی امام کے دوسرے ماموں خان بہادر سید نصیر الدین بھوپال کے نواب کے یہاں وزیر خزانہ مقرر ہوئے تھے ، علی امام کے خود اپنے چھوٹے بھائی حسن امام بھی ایک ممتاز ترین شخصیتوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۶ء کے درمیان وہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج رہے بعد میں انہوں نے جج کے منصب سے استعفاء دیگر پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی اور ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست میں حصہ لیتے رہے ، ۱۹۱۸ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک خصوصی اجلاس ( ممبئی ) کی صدارت کی ، انہوں نے بھی ۱۹۲۳ء میں لیگ آف نیشنز (League of Nations) میں ہندوستان کی نمائندگی کی تھی ۔
(۴)
علی امام ایک پُرکشش شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا قد لمبا تھا اور رنگ بے حد صاف ، ان کی آواز کافی رعب دار ، بے حد پرکشش تھی ۔ خطابت ایسی کہ لوگ محصور ہوجاتے ، ان کا جسم کافی گھٹا ہوا تھا کیونکہ وہ ہر روز پابندی سے ورزش کیا کرتے تھے ۔ ان کا وضع قطع نہایت مغربی انداز کا تھا لیکن وہ اپنی پرانی قدروں کا بھی اعتراف کرتے تھے اور اسے برتنے کی بھی کوشش کرتے تھے، انہیں خدا پر مکمل بھروسہ تھا، بقول اقبال حسین ۔۔۔’’ وہ اپنے تمام کاموں میں اللہ کی ہی خوشنودی ڈھونڈتے تھے اور ہمیشہ راضی بہ رضا رہے تھے ‘‘ پروفیسر سید اقبال حسین نے اپنی کتاب میں ان کے اداکئے ہوئے جملے کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ وجود باری تعالی پر مجھے ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ کسی ذاتی مشاہدہ کی چیز پر یقین ہوتا ہے ( داستان میری ص۔ ۵۰۸) انہیں انگریزی ، اردو، فارسی ، عربی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ اردو زبان میں فی البدیہہ تقریریں نہایت سلاست اور روانی سے کرتے تھے انہیں اردو کے سینکڑوں اشعار یاد تھے ۔ جس کا استعمال اپنی گفتگو میں برمحل کیا کرتے تھے جسے سن کر بڑے سے بڑے اردو زبان کے ماہرین دم بخود رہ جاتے ۔ رواداری اور شرافت ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی پروفیسر اقبال حسین نے اپنی کتاب ’’ داستان میری ‘‘ میں ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے ’ ’ ایک روز مریم منزل ، پٹنہ میں سر علی امام کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا کہ ان کے دور کا ایک نوجوان رشتہ دارجسے جذام کا مرض تھا کھانے کے کمرے میں داخل ہو گئے، انہیں دیکھ کر سر سید علی امام نے فرمایا کہ آپ بھی ہم لوگوں کے ساتھ کھانے میں شرکت کریں ، مریض رشتہ دار نے نہایت خوش ہوکر ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹیبل پر کھانے میں شرکت کی ، کھانا چونکہ انگریزی طرز سے کھایا جارہا تھا اس لئے چھوٹ کا اندیشہ بہت کم تھا ، کھانا ختم ہوجانے کے بعد سر سید علی امام نے اپنے خدمت گار کو اشارے سے ہدایت دی کی ٹیبل پر وہ سب چیزیں جنہیں رشتہ دار موصوف نے استعمال کی تھیں الگ کری جائیں ۔ ( صفحہ ۵۰۹) عام انسانی زندگی میں نجانے کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا واقعہ ایسے شخص کی زندگی میں رونما ہو جو کامیابیوں کی بلندی پر پہنچے کے باوجود بھی انسانیت کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ ے رکھے تو یقیناًہمیں دیر تک سوچنے کے لئے مجبور کر دیتا ہے ، ایسی ہی انسانیت نواز شخصیت کے مالک علی امام بالآخر ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور انیس کیسل (Anis Castle) رانچی (جھارکھنڈ ) میں اپنی مقررکردہ جگہ پر مدفون ہوئے ۔




Back   Home