پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج ۔ ایک تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور کے انتخابی نتائج 11 مارچ کو سامنے آگئے۔سیاسی پنڈتوں کو خاص طور سے یوپی کے نتائج نے نہ صرف حیرت زدہ کر دیا بلکہ صحیح طور سے تجزیہ کرنے کی وجوہات کو بھی ٹھیک سے تلاش نہیں کر پا رہے ہیں اور الفاظ بھی پورے حالات کا صحیح طور سے فوکس کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ خاص طور سے یوپی کے فیصلہ کو ٹھنڈے دل ودماغ سے تجزیہ کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا؟ بہت سارے اسباب پیش کیے جارہے ہیں اور یہ تمام اسباب صحیح بھی نظر آرہے ہیں لیکن کسی ایک بڑے سبب کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے، چونکہ ہر پانچ سال پر انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس کے تحت انتخاب ہوئے۔ رزلٹ آنے کے بعد جو حکومت بنائی گئی اس نے اس محاورے کو ثابت کیا ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘۔ گوا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ گورنر کو چاہیے تھا کہ وہ تعداد اور روایت کے لحاظ سے کانگریس کو حکومت سازی کی دعوت دیتے مگر بی حے پی کے نمبر کم تھے اس کے باوجود اس کو دعوت دی گئی۔ یہی کھیل منی پور میں بھی کھیلا گیا، جو جمہوریت کے لیے صحیح نہیں ہے۔ صحت مند جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ صحت مند طریقے کو اختیار کیا جائے نہ کہ جمہوریت کی روح کو کچلتے ہوئے آگے بڑھا جائے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت تو برقرار رہی لیکن دستور کی روح کچل دی گئی۔
اترپردیش کے نتائج کے تجزیہ سے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ جو نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیاں تھیں وہ اپنے انتشار کو چھپا نہیں سکیں اور نہ اسے دستور کی روح کی حفاظت کی پرواہ تھی، نہ صحیح حکمت عملی اختیار کرنے کا کوئی میکنزم تھا۔ ہر ایک پارٹی وزیراعلیٰ سے نیچے دیکھنا نہیں چاہ رہی تھی اور جو انتشار اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے، سماج میں رہنے والے کمزور طبقات خواہ کوئی مذہب، فرقہ یا عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے لیے مستقبل کا کوئی نقشہ نہیں پیش کر پارہی تھی اور نہ کوئی کرشمائی جملے پیش ہو رہے تھے۔ اگرچہ اس کی مہارت آزاد ہندوستان میں کسی اور پارٹی کے پاس ہے ہی نہیں جو آر ایس ایس نے اپنی قائم شدہ سیاسی پارٹی کو سکھایا ہے۔ ان کی جملہ بازیوں میں کشش بھی ہے، دھوکہ کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے، مگر پھر بھی عوام کی کشش چوٹ کھانے کے بعد بھی اسے ہی سچا سمجھتی ہے جو سیکولر پارٹیوں کے لیے مطالعہ کا بھی موضوع ہے اور سماج میں رہنے والے ہر شخص کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک نفسیاتی اور سماجی پہلو کو پرکشش انداز سے پیش کرنے کی صلاحیت نظر نہیں آئے گی اس وقت تک عوام اپنے قیمتی ووٹ کا وزن شاید سیکولر پارٹیوں کے حق میں نہ ڈالیں۔
سماج وادی پارٹی میں باپ بیٹے کے اختلاف نے بھی کھلے عام رائے دہندگان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی نیز جس طرح آخری دو مرحلے کے انتخاب سے قبل پرینکا گاندھی نے تشہیری مہم میں شامل ہونے سے منع کر دیا اس نے بھی پورے ماحول کو یکطرفہ ہونے کا اشارہ دے دیا تھا۔
دستور ہند دوران الیکشن نفرت آمیز تقاریر، فرقہ پرستی کو بھڑکانے اور دستور کو تباہ وبرباد کرنے سے مکمل طور پر روکتا ہے اور انصاف وبھائی چارگی پر زور ڈالتا ہے۔ بھائی چارگی کے ہر سوتے جو بھائی چارگی کو مضبوط کرتی ہے اسے کوئی بھی پارٹی اگر توڑتی ہے تو اس کے خلاف چاہے وہ شخص ہو یا پارٹی اس پر فوری ایکشن لے، مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن کمیشن یا تو اپنے کو لاچار اور مجبور سمجھ رہا تھا یا خوف وہراس یا لالچ نظر آرہا تھا کہ کھلے طور پر نفرت کو پھیلانے، منافرت کو بڑھانے، نفرت کی حکمت عملی میں یہ ایک حکمت عملی تھی جس کا نمونہ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج وغیرہ کی تقاریر ہیں، وہ آخری مرحلے تک اپنی بات کہتے رہے ان کی بات پر کوئی ایکشن نہیں ہوا، جو اسے تقریر کرنے سے روک دیا جاتا اور اگر اب الیکشن بعد کوئی ایکشن ہوتا بھی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ کہاوت ہے ’بعد محرم یا حسین‘۔ چونکہ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا، ان کی تقریریں نفرت پھیلانے کے لیے جاری رہیں، اس سے فرقہ پرستی کو مکمل آزادی ملی کہ اس نفرت کی آگ میں مزید گھی ڈالیں اور کمزور طبقات خاص طور سے اقلیت خوف وہراس کے عالم میں آئیں۔ نئے نئے جملے اس طرح سے استعمال کیے جائیں کہ سیکولر پارٹی جو دستور کو محفوظ کر سکتی تھی اس کے خلاف عام لوگ کھڑے ہوتے چلے جائیں اور ان کے ووٹ بھی منتشر ہو جائیں۔ جہاں وزیر اعظم بھی شمشان، قبرستان، رمضان اور دیوالی جیسے اچھے تہواروں کو بھی بھائی چارگی، محبت، ایثار وقربانی، آپس میں گلے ملنا، ایک دوسرے کو عزت واحترام دینا کو بھی فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا جس کے نتیجہ میں منافرت میں شدت پیدا ہو گئی، جان ومال، عزت وآبرو کا خوف پیدا ہونے لگا۔ عدلیہ کی حیثیت چونکہ دستور کی حفاظت کے کسٹوڈین کی ہے، دستور کو صحیح ڈگر پر قائم رکھنے کے لیے قانون کو سبھی کے لیے یکساں طور سے رواں دواں رکھنے کے لیے، بھید بھاؤ سے بچانے اور قانون کا صاف ستھرے استعمال کا ماحول بنانے کی ہے، جس طرح قانون کی دھجی اڑائی گئیں اور قانون کے رکھوالے خوف وہراس کے ساتھ قانون کا استعمال کر رہے تھے اور لازمی طور پر جس کا خوف تھا اس کے خلاف ان کی زیادتیوں کو نظرانداز کرنا اور جو کمزور تھے ان پر زور زبردستی کرنا اسی پر عمل پیرا نظر آرہے تھے۔ عدلیہ تک یہ خبر جاتی رہی کہ مختلف بوتھ پر زیادتیاں ہو رہی ہیں اور لیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں گڑ بڑ ہو رہی ہے یا مشین خراب ہو گئی ہے یا کوئی بھی بٹن دبائے وہ ایک ہی پارٹی کے سمبل کو نشان زد کر رہی ہے۔ کیا یہ موضوع سپریم کورٹ کے Suo-motto کے لائق نہیں ہے، جہاں عوام کا اعتماد جو جمہوریت کو بنانے اور اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لیے اس الیکشن نے مشکوک کر دیا کیا ان کے اعتماد کو بحال کرنا ضروری نہیں؟
یقینی طور پر مسلمانوں کے ووٹ ڈویزن نے بھی بی جے پی کو شاندار کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ ڈویزن ہر سطح پر تھا، خواہ عام مسلم ہوں، غیرسیاسی لیڈر ہوں، مسلم تنظیمیں ہوں، مسلم معروف سیاسی لیڈر ہوں یا بلوں سے نکلنے والے موسمی لیڈر ہوں، انہوں نے بھی مسلم ووٹرس کی سوچ کو متاثر کیا۔ بہت سی ایسی تنظیمیں جو کسی نہ کسی سیکولر یا دیگر پارٹیوں سے وابستگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے ان کی اپیلوں میں جہاں ایک طرف ایک دوسرے کے تئیں اعتماد پیدا نہیں ہوا وہیں جن کا رابطہ جس پارٹی سے تھا وہ کھل کر بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ بہت سی مسلم تنظیموں نے اپنی سیاسی پارٹی قائم کر رکھی ہے جس کی وجہ سے مسلم ووٹرس کے اندر اتحاد کی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔ وہیں بی جے پی اپنا کھیل کھل کر کھیل رہی تھی، جارحانہ انداز، ڈویزن خاص طور سے سیکولر پارٹیوں اور مسلمانوں میں پیدا کرنے اور ایسے حالات پیدا کرنے جس کی وجہ سے سیکولر پارٹی سچ بولنے سے بھی گریز کر رہی تھی چاہے وہ مسلمانوں کو جیل میں پھنسانے کا معاملہ ہو، تعلیم وروزگار کا معاملہ ہو، اس لحاظ سے اپنا بیان نہیں دیتی کہ کہیں بی جے پی ووٹ کو پولورائز کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے، جس کے نتیجے میں جو مظلوم طبقہ تھا وہ پوری طرح سے تاریخی پس منظر میں اعتماد بھی نہیں کر پارہی تھی اور بہت سارے مسلم امیدوار سیکولرپارٹیوں کے انہی حلقہ انتخاب میں کھڑا کر دینے کے سبب مسلمانوں کی فراست اور عقل کے سامنے بڑا چیلنج تھا، جسے علامہ عبید اللہ سندھی نے بہت پہلے یہ بات کہی تھی ’’اللہ تعالیٰ جس قوم پر عذاب کا فیصلہ فرماتا ہے اس کا سیاسی شعور سلب کر لیتا ہے‘‘۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سیاسی شعور سلب ہو گیا مگر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بے شمار مسلم امیدواروں کی وجہ سے کنفیوزن پیدا ہونا فطری تھا اور مسلم سیاسی قیادت انتشار فکری وعملی شکار تو ضرور ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں اسمبلی کی تاریخ میں سب سے کم مسلمان منتخب ہوئے۔ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ مسلم قیادت میں سیاسی بصیرت کی کمی تھی خواہ وہ سیاسی قائدین ہوں یا غیر سیاسی۔
ایک اور پہلو ہے کہ مسلم لیڈر شپ کچھ جلد بازی میں تھی، ابھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا صرف الیکشن کی بازگشت سنائی پڑ رہی تھی اور کوئی متفقہ رائے یا ایسا کوئی لائحہ عمل بھی نہیں بنایا گیا تھا کہ بہت سارے نامور سیاسی اور غیر سیاسی مسلم قائدین نے اپنی حمایت کا اعلان شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں ایک بڑا مسئلہ جب اس کی کوشش کی گئی کہ آیا بڑے نامور اور قدآور شخصیات کا کئی پارٹیوں کے حق میں اعلان آچکا ہے تو اب ممکن نہیں تھا کہ انہیں کوئی ایسی حکمت عملی بتائی جائے جس سے آپس میں اتفاق رائے قائم ہو سکے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس طرح کا پیچیدہ مسئلہ یوپی کا تھا اس کو حل کرنے کے لیے مسلسل دو سال قائدین کو کوشش کرنی چاہیے تھی۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ بہار کا نمونہ یوپی میں استعمال نہیں ہو سکتا چونکہ حالات وہاں کے مختلف تھے، چاہے سیکولر پارٹیاں ہوں یا مسلمانوں کی سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں ہوں سب کا طریقۂ تجزیہ مختلف تھا۔ دوسری طرف جمہوریت کا چوتھا ستون جسے عام زبان میں میڈیا کہتے ہیں۔ میڈیا جو سچ کو سامنے لائے، غلط کو غلط کہہ سکے، بے لاگ تجزیہ کرے، عوام کو صحیح طور پر بیدار رکھ سکے، عوام کو کسی طرفداری کے بغیر حق کو صحیح طریقے سے پیش کر سکے مگر ایک آدھ کو چھوڑ کر ہمارے ملک کے میڈیا نے پبلک ریلیشنز (پی آر) کا رول زیادہ نبھایا، صحیح میڈیا کا رول نہیں نبھایا۔ ہندوستانی میڈیا ایک پارٹی سے اس قدر متاثر اور ایک قائد سے اس قدر مرعوب تھا کہ جیسے کہا جاتا ہے ’پیاہے ہمارا پیارا تو اس میں خرابی کیا دیکھنا‘۔ جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کی ہر چیز میڈیا کو بہت پسند آئی، خواہ پہناوا ہو یا بات کرنے کا انداز ہو یا ان کے انتشار کو اس انداز سے پیش کیا کہ وہ عوام کو بھائے، اس نے اس پر قطعی طور پر یہ غور نہیں کیا کہ اس کا اثر مستقبل قریب وبعید میں دستور ہند پر کیا پڑے گا؟ سماج کے تانے بانے کا مضبوط ہونا تو دور کی بات وہ قائم رہے گا؟ کیا نفرت کی یہ آگ کمزور اور اقلیت کے گھر کو جلانے کے لیے رہے گی یا مستقبل میں دیگر گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔ کہاوت ہے ’آگ کو خوراک نہیں ملتی تو وہ خود کو کھانے لگتی ہے‘۔ کیا ہم اس کا شکار تو نہیں ہوتے جا رہے ہیں، کیا جس طرح سے دستور کی روح کو ناکام کیا گیا، اس کا اندیشہ ہی نہیں ہے کہ مستقبل میں ہٹلر اور مسولینی کو جنم دے گی۔
اب یہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ ای وی ایم ایک مہابلی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی لیے جاپان، جرمنی اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عوام کی رائے کو مشین کے ذریعہ الیکشن میں نہیں استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ اسے کوئی بھی طاقتور سیاسی پارٹی استعمال کر سکتی ہے۔ آج یوپی کے عوام نے ووٹ ڈالے ہیں اور جو ماحول بنایا گیا تھا اور جو نتیجہ آیا اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ایشوز دستور ہند اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے الیکشن کمیشن سے لیکر جیوڈیشری تک یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ دستور کو بچانا ہے اور جمہوریت کو جو عوام سے، عوام کی اور عوام کے لیے ہوتی ہے کے اداروں کی تکمیل کے لیے ایسی مشینوں کا استعمال نہ کریں کہ ووٹ تو اس کو دے رہے ہیں لیکن مشین کسی اور کو پہنچا رہی ہے۔ کیا اس سے ہمارا ضمیر اور ہمارا یقین مضبوط ہو گا؟ یہ سوال پورے ملک سے بھی ہے اور یہاں کے نظام عدل اور الیکشن کمیشن سے بھی ہے۔
2010 میں جی وی ایل نرسمہا راؤ نے ایک کتاب لکھی تھی ’جمہوریت خطرے میں، اور کیا ای وی ایم پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں‘۔ یہ بی جے پی کے جنرل سکریٹری تھے اور اس پر پیش لفظ ایل کے اڈوانی نے لکھا ہے۔ کیا یہ کتاب خود اڈوانی سے سوال نہیں کر رہی ہے کہ جب آپ ناکام ہو گئے 2009 میں تو آپ نے بہت سارے حقائق پر مبنی کتاب پر پیش لفظ لکھا۔ آج آپ کی زبان گنگ کیوں ہے؟ نرسمہا راؤ سے بھی یہ کتاب سوال کر رہی ہے کہ آپ کہاں چلے گئے؟ کیا آپ لوگ اپنے ضمیر کا سودا کر رہے ہیں یا یہ سبق دے رہے ہیں کہ سیاست صرف موقع پرستی ہے خدمت نہیں۔ دستور کی قسم رسم نبھانے کے لیے نہ کہ عمل کرنے کے لیے۔ کیا یہ سبق آنے والی نسلوں کو دے رہے ہیں کہ مورکھوں وقت آئے تو فائدہ اٹھاؤ، اخلاق کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش نہ کرو۔ کیا آپ لوگ یہ آدرش چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی انسان سیاست میں آدرش نہیں ہے۔ سب اپنی ذات اور اپنے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ سوال یوپی کے عام سوچ سمجھ رکھنے والے انسانوں سے کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ سوال مسلمانوں سے کر رہا ہے کہ آپ اپنی سیاسی بصیرت کو کیوں چھوڑ رہے ہیں، صرف اس لیے کہ کبھی ٹی وی والا آپ کو حیثیت دے دیتا ہے یا سیاسی لیڈر آپ کے بھاؤ کو بڑھا دیتا ہے یا کبھی اچھے مواقع کو فراہم کر دیتا ہے۔ کیا یہ درس ہم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ کر جارہے ہیں اور چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کامیابی یا ناکامی ہر میدان میں خاص طور سے سیاست میں غیرفطری نہیں ہے مگر اس کے بعد بھی ہم کوئی سبق نہ لیں، نہ بصیرت بڑھائیں، نہ اعتماد بڑھائیں، نہ آپس میں گھل مل کر نقشہ تیار کریں۔ یہ ملک ہم سے مانگ کر رہا ہے کہ جہاں آپ خون دیکر ملک کو بچاتے ہیں وہاں سر جوڑ کر خود کو بچائیں اور ملک کو بھی پروان چڑھائیں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home