نوٹ بندی اور سماجی ناانصافی کی بڑھتی کھائی
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
نوٹ بندی کو لے کر حکومت کے ذریعہ دیا گیا 50 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ملک کی اقتصادی رفتار سنبھل نہیں پائی ہے حتی کہ 8؍نومبر 2016 کو وزیراعظم نریندرمودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دیش واسیوں سے کہا تھا کہ انہیں اس کے اچھے نتائج ملیں گے اور ملک کی اقتصادیات بہتر ہو گی۔ لیکن وزیر اعظم نریندرمودی اور ان کی حکومت کے وزراء حیرت انگیز طور پر متعین وقت گزر جانے کے بعد بھی خاموش ہیں۔ وہ نہ تو اس کے بہتر ثمرات پر روشنی ڈال رہے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ جو بینکوں میں اپنی ہی رقم حاصل کرنے کے لیے لائن میں کھڑے جاں بحق ہو گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے کے لیے کوئی اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ 2؍جنوری 2017 کو لکھنؤ کی پریورتن ریلی میں وزیر اعظم نے دیگر سیاسی پارٹیوں کو تو نشانے پر لیا لیکن نوٹ بندی سے ہونے والے نقصان پر پوری طرح خاموشی اختیار کی۔ ان کے اس طرز عمل سے جہاں بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہاں اس سے اپوزیشن اور اقتصادی ماہرین کے اس الزام کو تقویت مل رہی ہے کہ نوٹ بندی عجلت میں لیا گیا فیصلہ ہے اور اس کا مقصد بدعنوانی کو ختم کرنے سے زیادہ اپنے سیاسی حریفوں کو پریشان کرنا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خود بی جے پی اس کو لیکر پریشان ہو رہی ہے۔ اس کے اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں جانے سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہاں انہیں زمینی حقیقت سے روبرو ہونا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ عام آدمی کے سوالوں کا جواب دینے میں بے بس نظر آرہے ہیں کہ اس نوٹ بندی سے ملک کو کیا ملا اور اب تک کتنی کالی دولت واپس آئی نیز کیا ملک سے بدعنوانی ختم ہو گئی؟ وغیرہ
نوٹ بندی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سماج کے سبھی کمزور طبقات بشمول روز مرہ کی محنت مزدوری کرنے والے مزدور، کسان، کارخانوں میں کام کرنے والے کاریگر اور اقلیتوں بالخصوص مسلمان ہیں۔ چاہے علی گڑھ میں تالہ بنانے کی صنعت ہو، فیروزآباد میں چوڑی بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے ہوں، بھدوئی کی قالین ہو یا بنارس کی ساڑیاں، مراآباد کا پیتل کارخانہ ہو یا چمڑے کی مصنوعات تیار کرنا ہو، ہر جگہ کاریگروں، محنت کشوں اور دست کاروں کی ایک بڑی تعداد ان پیشوں سے وابستہ ہے۔ اخباری سروے کے مطابق ان چھوٹے کارخانوں پر نوٹ بندی کا اثر سب سے زیادہ پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کاریگر اور مزدور بے کار ہو گئے ہیں، کیونکہ مالکوں کے پاس دینے کے لیے نئی کرنسی نہیں ہے۔ مسلم محلوں میں بینکوں کی تعداد ویسے بھی کم ہے اور ان کے جو اے ٹی ایم ہیں ان میں نقدی کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی مسلمانوں کو ہو رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کیش کی قلت ہے اس کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈیمانڈ نہیں ہے اور ڈیمانڈ نہیں ہونے سے سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ اس سے لوگوں کے روزگار جا رہے ہیں اور نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ذریعہ 30؍ دسمبر کو جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس کے مطابق سال 2014 کے مقابلے 2015 میں کسانوں اور مزدوروں کی خودکشی کے واقعات میں دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں کل 12360 کسانوں اور زراعت سے منسلک مزدوروں نے خودکشی کی تھی۔ 2015 میں یہ تعداد 12602 رہی۔ مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے سب سے زیادہ سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خودکشی کی وجوہات کے پیچھے کنگالی، قرض اور کاشتکاری سے وابستہ دقتیں اہم ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ کسانوں کی ہمدرد ہے۔ اس کا یہ دعویٰ خود اس کے محکمہ کے اعداد وشمار سے میل نہیں کھاتا ہے۔ بیتے سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب نکئی مارکیٹ انڈیا مینوفیکچرنگ مینجرس انڈکس (پی ایم آئی) کے اعشاریہ میں 3 ہندسوں کی گروٹ آئی ہے۔ 2016 میں یہ اعشاریہ پہلی بار 50 سے نیچے اتر کر 49.6 پر آگیا جبکہ نومبر میں یہ 52.3 پر تھا۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج میں بھی گراوٹ دیکھی گئی۔ رہی سہی کسر ڈالر نے پوری کر دی جہاں روپے کی قیمت مزید گر گئی اور ڈالر کی پوزیشن مستحکم ہو گئی۔ امریکی میگزین ’فوربس‘ نے بھی نوٹ بندی کو بیماری کا علاج بتانے کے بجائے خود ایک بیماری بتایا تھا۔ اس کے مطابق ہندوستانی معیشت نقدی کی ہے اور ایسے لوگوں کی تعداد 20فیصد ہے جن کے بینکوں میں اکاؤنٹ نہیں ہیں جبکہ امریکا میں یہ تعداد 7 فیصد ہے، اس کے باوجود وہاں کی اکنامی کیش لیس نہیں ہے۔
نوٹ بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکا کے ایک معروف ماہر اقتصادیات سیٹوایچ ہانکے نے کہا کہ اس سے ہندوستانی معیشت کی ٹرین پٹری سے نیچے جائے گی اور 2017 میں اقتصادی ترقی کے معاملے میں ہندوستان قیادت کے پلیٹ فارم سے نیچے کھسک سکتا ہے۔ ابھی اس گونج کی صداکمزور بھی نہیں ہوئی تھی کہ خود صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی سے معیشت کی رفتار سست پڑ سکتی ہے اور اس سے یقیناًغریبوں کی پریشانیاں بڑھیں گی نیز اس سے عارضی اقتصادی کساد بازاری ممکن ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ملک میں رائج 500 اور 1000 روپے کے جو نوٹ چلن میں تھے اس کا 97 فیصد واپس بینکوں میں آگیا ہے جس کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ پھر کالادھن کہاں ہے؟
وزیر اعظم نریندرمودی کے حلقہ انتخاب بنارس میں 3 سے 6 اکتوبر 2016 کے درمیان انڈیا کارپیٹ ایکسپو لگا تھا۔ جس میں قالین کے کاروباریوں کو 250 کروڑ روپے کے آرڈر ملے تھے لیکن نوٹ بندی کے سبب اس آرڈر کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بینکوں میں نقدی کی فراہمی نہیں ہے جس کی وجہ سے کام متاثر ہو رہا ہے۔ ان کاروباریوں کی مانیں تو یہ صنعت 40 فیصد تک گھٹ گئی ہے، حتی کہ جنوری میں جرمنی کے ہنور اور مارچ میں نئی دہلی میں لگنے والے میلے کے لیے سیمپل کا بنوانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے کالے دھن پر حکومت کی آئندہ حکمت عملی بھی نہیں پیش کی جس کی وجہ سے اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن کے سوالات ہنوز تشنہ ہیں۔ البتہ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ نوٹ بندی سے کس کو فائدہ پہنچا؟ اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کہ ایسا صرف ان پونجی پتیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے جنہوں نے بینکوں سے کروڑوں روپے قرض کی شکل میں لیے ہیں، لیکن اب نہ تو قرض ہی واپس کر رہے ہیں اور نہ ہی بینکوں کو اس پر سود مل رہا ہے، جس کی وجہ یہ بینک خسارے میں چلے گئے ہیں۔ اس طرح کے قرض کو نان پرفارمنگ اسیٹ (خراب قرض) کہتے ہیں۔ گزشتہ سال 5330.96 کروڑ روپے تھا جو اس سال بڑھ کر 15326.91 کروڑ روپے ہو گیا۔ قرض کے اس بڑھتے بوجھ سے صاف ہے کہ بینکوں نے قرض کے طور پر کمپنیوں کو روپے تو دیے ہیں لیکن وصولیابی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت سے 500 کروڑ روپے کے قرضداروں کی نہ صرف فہرست طلب کی ہے بلکہ یہ بھی بتانے کو کہا کہ ان سے قرض وصولنے کے لیے حکومت نے کیا کوششیں کیں۔
بینکوں سے اپنی ہی رقم نکالنے کے لیے ریزروبینک آف انڈیا کی جانب سے پابندی لگادی گئی اور ایک طے شدہ رقم مقرر کر دی کہ ایک ہفتہ میں اس سے زیادہ نہیں نکل سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی بینک کے پاس ایک لاکھ روپے کی نقدی تھی اور اس میں سے خراب قرض یعنی نان پرفارمنگ اسیٹ کل قرض کا 5 فیصد تھا۔ اب جبکہ بینک کے پاس دو لاکھ روپے کی نقدی آگئی تو نان پرفارمنگ اسیٹ اپنے آپ میں 2.5 فیصد ہو جائے گا۔ اس طرح بڑے بقایہ داروں سے قرض وصولنے کا دباؤ کم ہو جائے گا اور بینک سود کی شرح کم کریں گی تو اس سے جمع کرنے والوں کو گھاٹا اٹھانا پڑے گا جبکہ بڑے قرضداروں کو سود کی شرح کم ہونے سے فائدہ ہو گا۔ اس تجزیے سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ مرکز کی موجودہ این ڈی اے حکومت آر ایس ایس کے اس ایجنڈہ پر چل رہی ہے جس میں سماج کے کمزور طبقوں، آدی واسی، دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے اقتصادی ترقی کا کوئی مطلب نہیں ہے اور وہ صرف چند ہاتھوں میں دولت کو سمیٹ کر رکھنا چاہتی ہے، تاکہ سماج کے کمزور طبقات کا استحصال کر سکے۔ قابل ذکر بات ہے کہ آر ایس ایس سے وابستہ لگھو اور ویوگ بھارتی نے اپنے سروے میں اس بات کی تصدیق کی ہے جو کہ اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ نوٹ بندی کے سبب چھوٹے اور اوسط درجے کی انڈسٹریز کے کاموں میں 70 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود آر ایس ایس پوری طرح حکومت کے ساتھ ہے۔ اس تنظیم کے پورے ملک کے 400 ضلعوں میں اراکین پھیلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے بھی بنگلور کے ایک پروگرام میں لیکچر دیتے ہوئے سماجی ناانصافی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 45 فیصد دولت پر محض ایک فیصد لوگوں کا قبضہ ہے۔ مذکورہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ملک کے دستور پر عمل کرنے کے بجائے برہمنی ایجنڈے پر گامزن ہے۔ اس کے ذریعہ وہ سماج میں ایک کھائی پیدا کر کے مزدوروں، کسانوں، کاریگروں، دستکاروں، محنت کشوں اور کمزور طبقات کا استحصال کرنا چاہتی ہے۔ ان طاقتوں نے یہ طریقہ دستور کی معرفت ہی طے کیا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی دستور میں دی گئی آزادی، حق اور اس کی طاقت کو سمجھنا ہو گا تبھی ہم اس دستور کی حفاظت کر سکیں گے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home