اسمبلی انتخابات اور کمزور طبقات کے سامنے چیلنجز
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
الیکشن کمیشن نے اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور سمیت پانچ ریاستوں کے انتخابی عمل کا پروگرام جاری کر دیا ہے۔ انتخابات صاف، شفاف اور پرامن ہوں۔ یہ الیکشن کمیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ الیکشن کمیشن نے جہاں اس کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں وہاں سیاسی پارٹیوں سے بھی معاونت طلب کی ہے تاکہ دستور میں دی گئی آزادی، سا لمیت اور بھائی چارگی کو برقرار رکھا جا سکے۔ دستور کے دیباچے میں دی گئی یہ آئینی ضمانت ہی دراصل ہمارے گلشن کی پہچان ہے جو کثرت میں وحدت کے فلسفے کو پیش کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر ایسے ہیں جنہیں دستور کا یہ فلسفہ راس نہیں آتا ہے اور وہ اسے ہر ممکن طریقے سے مٹانے اور اس کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے الیکشن کمیشن کے سامنے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ کیسے ان عناصر پر قابو پاتے ہوئے انتخابات کے عمل کو صاف، شفاف اور پرامن منعقد کرائے۔ سیاسی پارٹیاں آئین کے اس تصور سے بندھی ہیں اور وہ پابند ہیں کہ اس کی پاسداری کریں اور ایسے کسی اقدام سے گریز کریں جس سے سماج میں نفرت، تعصب، منافرت اور تنگ نظری پروان چڑھتی ہو اور اس کے نتیجہ میں سماج سے بھائی چارہ، اخوت ومحبت رخصت ہوتی ہو۔
لیکن اگر گزشتہ انتخابات کا جائزہ لیا جائے اور سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو فاشزم کی علمبردار سیاسی پارٹی کا طرز عمل دستور کے خلاف پایا گیا ہے۔ اس لیے اس بار ایسا نہیں ہو گا کے خدشہ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے اگر مذکورہ ریاستوں کی انتخابی سرگرمیوں کو دیکھیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ فاشسٹ عناصر نے ماحول کو پراگندہ کرنے، سماج میں نفرت پھیلانے اور بھائی چارے کو ختم کرنے کی مذموم کوشش شروع کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحول فرقہ وارانہ خطوط پر استوار ہو رہا ہے۔ اس سے جہاں ملک کے کمزور طبقات، دلتوں، آدی واسیوں، حاشیہ پر رہ رہے لوگوں کے حقوق واختیارات کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے وہاں اقلیتوں اور مسلمانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ اترپردیش کے ضلع اناؤ سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے انتخابات سے عین قبل میرٹھ میں منعقد سادھو سنتوں کے اجلاس میں جس طرح 4 بیویاں اور 40 بچوں کی بات کر کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے آبادی بڑھانے کا الزام لگا کر یکساں سول کوڈ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے دراصل ماحول کو فرقہ وارانہ خطوط پر بانٹنے کا کام کیا ہے باوجود اس کے کہ الیکشن کمیشن نے ان کی سرزنش کی ہے، لیکن اس کے بعد بھی ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی جارہی ہے۔ اس سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ چور سے کہا جائے کہ تم چوری کرتے رہو اور ہم جاگتے رہو کا نعرہ بلند کرتے رہیں گے۔ جب کبھی اس طرح کے بیانات آتے ہیں تو بی جے پی فوراً خود کو اس سے الگ کر لیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہے جس سے پارٹی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پارٹی کا ایک رکن پارلیمنٹ سماج میں نفرت پھیلانے اور تعصب کو پروان چڑھانے کی بات کرتا ہے تو وہ پارٹی اس پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے ان کا بیان کہہ کر اپنا دامن بچاتی ہے؟ کیا دستوری ضابطے میں بندھی ہونے کے سبب پارٹی کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنے اراکین کو اس کام کے لیے آزاد چھوڑ دے اور جب کبھی بات آئے تو دامن جھاڑ کر خود کو بچا لے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بی جے پی خود بھی اسی نہج پر گامزن ہے۔
اس لیے بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ فاشسزم کی علمبردار آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں کس طرح سماج کو توڑنے اور ماحول کو پراگندہ کرنے میں لگی ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے کمزور طبقات، دلت، آدی واسی، حاشیہ پر رہ رہے، اقلیتیں اور مسلمان اس بات کو محسوس کر رہے ہیں یا اس کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ اگر محسوس کر رہے ہیں تو اس سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے گیے یا پھر ابھی بھی آپسی سر پھٹول اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش نے بی جے پی کی کامیابی کے دروازے کھول دیے ہیں جیسا کہ قبل کے لوک سبھا الیکشن میں ہو چکا ہے۔ انتخابات میں جب کبھی بھی ان طبقات کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے کیونکہ آر ایس ایس کی جو فلاسفی ہے اس میں ان طبقات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اسی لیے وہ ان طبقات میں باہمی میل ملاپ، بھائی چارگی اور اخوت کو پسند نہیں کرتی ہے۔ اس لیے اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سماج تقسیم ہوتاکہ وہ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکے۔ یہ صورتحال نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی سماج کے ان طبقات کے لیے مفید ہے۔ 2014 کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مظفرنگر فساد اس کی بہترین مثال ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں فرقہ وارانہ تصادم کبھی نہیں ہوا اور سبھی شیروشکر رہتے تھے لیکن فساد کی چنگاری نے یہاں کے سماج کو توڑ دیا اور ایک ایسا ماحول بنا دیا جہاں انسان، انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ اس صورتحال نے بی جے پی کو پوری طرح فائدہ پہنچایا اور اسے یہاں پہلی بار غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی جبکہ دیگر سیاسی پارٹیاں حاشیہ پر چلی گئیں۔ 2017 کے یوپی الیکشن میں بھی بی جے پی نے اس حکمت عملی کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مظفرنگر فساد کے ملزم سنگیت سوم اور سریش رانا کی امیدواری پر مہر لگا دی ہے۔ ایسا کر کے بی جے پی مظفرنگر فساد کو لیکر بنے ماحول کو بھنانے کی ایک بار پھر کوشش کرے گی یعنی ووٹ کا پولورائزیشن کیا جائے گا۔
اس لیے اصل مسئلہ دستور کے تحفظ کا ہے کہ ہم اسے کس طرح باقی رکھتے ہوئے ان طاقتوں کے نفرت انگیز اور منافرت پر مبنی اقدامات کو کیسے روک سکتے ہیں۔ جس طرح کی اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے اس کا مقصد ہی سماج کے کمزور طبقات کو مشتعل کرنا تاکہ وہ جذباتیت کا شکار ہو جائیں جس سے بی جے پی اور دیگر کو ان کا استحصال کرنے میں آسانی ہو۔ اس سمجھ کو پیدا کرنا ہو گا اس کے بغیر نہ تو ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی برہمن واد کی حکمت عملی کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب سماج کے کمزور طبقات، حاشیہ پر رہ رہے، دلت، آدی واسی، اقلیت اور مسلمان اپنے ہدف کو سمجھیں اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں اور آپسی میل جول کے ساتھ بغیر کسی برتری اور اعلیٰ کے سب کو ساتھ لیکر چلیں اور محبت کے پیغام کو عام کریں نیز قربانی دینے کے جذبہ کو بیدار کریں اور ایک دوسرے کے لیے قربانی دیں تاکہ سماج کی بنیادیں صحیح خطوط پر استوار ہو سکیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارا دستور جو کہ جمہوری سیکولرازم پر مبنی ہے سماج کے سبھی طبقات کو اپنی تہذیبی، ثقافتی اور لسانی شناخت کے ساتھ نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیتا ہے بلکہ اس کی تبلیغ کی بھی اجازت دیتا ہے۔ اس کے برخلاف فاشسٹ قوتیں دستور کے اس ڈھانچے کو پسند نہیں کرتی ہیں اور وہ بار بار اس بات کا اعادہ کر چکی ہیں کہ وہ اسے بدلنا چاہتی ہیں۔ اس دستور کے مقابلے جس دستور کی وکالت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں کرتی ہیں وہ منواسمرتی پر مبنی نظام ہے جس میں سماج کو کئی خانوں میں بانٹ کر اسے اونچ نیچ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تقسیم ہی دراصل برہمن واد کا ٹانک ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ اس کو لانے اور ملک کے جمہوری دستور کو بدلنے کی بات کرتی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے کس طرح لیتے ہیں اور اس حربے کواپنی حکمت عملی سے کس طرح ناکام کرتے ہیں۔ ملک کا مفاد دستور کے دیے ضابطوں میں پوشیدہ ہے لیکن اگر کوئی اس سے ہٹ کر بات کرتا ہے تو وہ اپنے مفاد کی بات کرتا ہے یا پھر برہمن واد کے مفاد کی بات کرتا ہے۔ وہ دستور کے مفاد کی بات نہیں کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں دستور کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں جذبات کو بھڑکانا اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا عام دنوں کے مقابلے نسبتاً آسان ہوتا ہے گو کہ یہ کام ذات، برادری اور مذہب کے نام پر کیا جاتا ہے جس کی جانب سپریم کورٹ نے بھی اپنے حالیہ فیصلہ میں خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے والوں پر قانونی کارروائی کی جائے گی لیکن قانونی کارروائی تو ایک پورے پروسیس کے نتیجہ میں عمل میں آئے گی، کیا تب تک ہم انتظار کریں گے یا خود سے آگے بڑھ کر ان طاقتوں کو بے نقاب کریں گے۔ اگر ہم نے اپنے اندر اتحاد واتفاق قائم رکھتے ہوئے یہ کام کر لیا تو 2017 کا یوپی الیکشن کئی لحاظ سے چونکانے والا ہو گا جس کے اثرات لازمی طور پر 2019 کے لوک سبھا الیکشن پر بھی مرتب ہوں گے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home