گیارہواں شاہ ولی اللہ ایوارڈ ’’تعلیم اسلامی تناظر میں‘‘



نئی دہلی، یکم اگست: ’’حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا کارنامہ غیر محیط ہے۔ قرآن فہمی اور عصرحاضر کے مسائل میں قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنے کی جو تحریک شروع کی تھی وہ آج بھی اتنی ہی اہم۔ لہٰذا ہمیں ہندوستان میں دعوت قرآن کی تعلیم کو عام کرنے پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔



‘‘ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) کے زیر اہتمام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انجینئرنگ آڈیٹوریم میں گیارہواں شاہ ولی اللہ ایوارڈ کی تقریب بعنوان ’’تعلیم اسلامی تناظر میں‘‘ صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے صدر حکیم مولانا عبد المغیثی نے کہا کہ مولانا سید رابع حسنی ندوی کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ہے وہ بہت صحیح ہے کیونکہ ان میں بھی شاہ ولی اللہ کی فکر پائی جاتی ہے۔ وہ جہاں علوم قرآنی پر مہارت اور عمیق مطالعہ رکھتے ہیں وہاں ان کی عالمی منظر نامے پر عمیق فکرونظر ہے۔



قبل ازیں مولانا رابع حسنی ندوی کے نمائندے ڈاکٹر شاہ عباد الرحمن نشاط نے ان کی جانب سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ یہ ایوارڈ ایک لاکھ روپے کے چیک اور میمنٹو پر مشتمل ہے۔ مولانا رابع ندوی اپنی علالت کے سبب نہیں آسکے۔ انھوں نے اپنا پیغام بھیجا تھا جسے ان کے نمائندے نے پڑھ کر سنایا۔



مولانا رابع حسنی ندوی نے اپنے پیغام میں فکر قرآن کو عام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سال رواں کے لیے شاہ ولی ایوارڈ کے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بہت مناسب فیصلہ ہے۔ مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی ایک صدی کی کوششوں سے مرتبہ کمال حاصل کر لیا تھا اورکئی صدی تک علم وتعلیم میں قابل مثال رہے۔ علم کے سلسلہ میں اسلامی تناظر کی اہمیت کو کم از کم مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت۔ قرآن مجید میں علم کو حقیقی معلومات کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور حقیقی معلومات انسان کو مشاہدہ وتجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔



سپاس نامہ ایس ایم شفیق اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کا قلمی خاکہ نوجوان صحافی اور وائس آف امریکا کے نمائندے سہیل انجم نے پیش کیا۔ اس موقع پر دو جونیئر مقالہ نگاروں محمد کفایت اللہ اورنجم السحر کو ان کے مقالے پر شاہ ولی اللہ ایوارڈ کے تحت مشترکہ 25ہزار روپے کا چیک دیا گیا۔ جبکہ 12ویں شاہ ولی اللہ ایوارڈ کے لیے ’’میڈیا، سماج اور ہندوستانی مسلمان‘‘، کے موضوع کا اعلان کیا گیا ہے۔



آئی او ایس چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ایوارڈ کی عرض وغایت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد نئی نسل کو ثقافتی ورثہ سے جوڑنا ہے کیوں کہ جو نسل اپنے بزرگوں اور اسلاف کے کارناموں سے واقف نہیں ہوتی ہے وہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ چونکہ شاہ ولی اللہ کی پوری فکر قرآنی فکر سے ماخوذ ہے اس لیے انسٹی ٹیوٹ نے 150چھوٹے چھوٹے لیکن اہم موضوعات پر کتابچے تیار کرنے کا کام شروع کیا ہے جس میں قرآن وحدیث کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اس کے علاوہ 25کتابچے ایسے ہیں جن میں غیر مسلموں کی جانب سے اعتراضات ودیگر عصری مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کو 17زبانوں میں شائع کرنے کا منصوبہ ہے۔ قرآن وحدیث پر جتنا کام ہوا اس کو حوالہ جات کے ذریعہ دو جلدوں میں مکمل کرنا ہے تاکہ وہ یکجا ہوسکے۔۔ اس کے علاوہ1400سالوں میں دنیا بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں نے مختلف میدانوں میں جو کارہائے نمایاں کام انجام دیے ہیں ان پر مبنی کتاب کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔



اسلامی فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے نے شاہ ولی اللہ کے افکارو نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو تین بنیادیں باتیں سامنے آتی ہیں۔ (۱) امت کا رشتہ قرآن وسنت سے قائم کیا (۲)دین کو عصری علوم سے مربوط کیا اور (۳) فکری اعتدال قائم کیا۔ عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لیے تینوں باتیں ضروری ہیں۔



سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر ایمپاورمنٹ نہیں ہوتی اور ایمپاورمنٹ کے بغیر نہیں ہوتی۔



جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنی گفتگو قرآن کے حکم ’اقرا‘ کے پس منظر میں کرتے ہوئے کہا کہ اس ایک جملے میں یہ وضاحت کردی گئی کہ پڑھو اپنے رب کے نام سے اگر یہ نہیں تو پھر وہ تعلیم بیکار ہے۔ تسمیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین ڈاکٹر سید فاروق نے حضورؐ کی سیرت کو تعلیم کے آئینہ میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ایک بہترین تاجر تھے اور جس طرح آپ نے زندگی گزاری اس کا سلیقہ قرآن سے ملتا ہے۔



آئی اوایس ایوارڈ کمیٹی کے سکریٹری پروفیسر اشتیاق دانش نے ایوارڈ یافتگان کے انتخاب پر روشنی ڈالی اور آئی او ایس جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خاں نے آئی او ایس کا مختصراً تعارف کرایا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر نکہت حسین ندوی نے انجام دیے۔ دیگر اہم شرکاء میں سعودی عرب کے خالد عبد اللہ السریحی، آئی او ایس وائس چیئرمین پروفیسر رفاقت علی خاں، پروفیسر افضل وانی، ڈاکٹر سید قاسم رسول، انجینئر محمد سلیم، محمد احمد، عبد الوہاب خلجی اور کمال فاروقی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ وریسرچ اسکالر کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

Back   Home